منگل، 5 ستمبر، 2017

حضرت ڈاکٹر علی ملپا صاحب بہٹکلی رحمۃ اللہ علیہ

*قصیدہ بر منقبت حضرت ڈاکٹر ملپا علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ بانی جامعہ اسلامیہ بہٹکل*

*از: شاعر بہٹکل ڈاکٹر محمد حسین فطرت بہٹکلی*

*سب سے پہلے لازمی ہے حمد رب العالمین*
*اور تسلیمات بر محبوب خلاق متین*

*ذکر ہے ملپا علی ابن شہاب الدین کا*
*جامعہ اسلامیہ کے بانی حق بین کا*

*جو خلیفہ ہیں وصی اللہ اور ابرار کے*
*خوشہ چین ہیں واقعی گنجینہ اسرار کے*

*جامعہ کی اک تڑپ ملپا علی لے کر اٹہے*
*نام خالق کا، وہ ہمت کے دہنی لے کر اٹہے*

*اک تڑپ اور اک لگن تہی جو انہیں سونے نہ دی*
*جامعہ کی فکر خواب ناز میں کہونے نہ دی*

*جذبہ کامل وجود جامعہ میں ڈہل گیا*
*فرد کہتے ہیں جسے وہ قافلہ میں ڈہل گیا*

*ہمت مردانہ کا واللہ یہ فیضان ہے*
*سب کے آگے جامعہ کا قصر عالی شان ہے*

*ابتدا ہی سے تصوف کی طرف میلان تہا*
*غرق ذکر وفکر گویا قلب اور وجدان تہا*

*مجہ کو کہنے دو تصوف نام ہے احسان کا*
*یعنی صدقہ چاہئے اس راستہ میں جان کا*

*جان کو بس ذکر میں تحلیل کرنا چاہئے*
*اس طرح احکام کی تعمیل کرنا چاہئے*

*میرے آگے ربط ذکر وفکر سے ہے لطف ذکر*
*گردش شام وسحر میں ہر گہڑی ہر دم ہو فکر*

*مجہ کو یہ کہنے دو علم وفضل کس کا نام ہے*
*علم کہتے ہیں جسے وہ معرفت کا جام ہے*

*یہ کتابی علم جو ہے، جنت بے حور ہے*
*اور شرح صدر جو ہے، معرفت کا نور ہے*

*علم کا جو نور ہے ڈہیروں کتابوں میں نہیں*
*اور حقیقی نور مکتب کے نصابوں میں نہیں*

*قول رومی صد کتاب وصد ورق در نار کن*
*لازمی ہے، سینہ را از نور حق گلزار کن*

*تو تصوف کا مزا آہ سحر گاہی میں ڈہونڈ*
*قلب بینا کا گہر مت مسند شاہی میں ڈہونڈ*

*پوچہئے فطرت سے قرآنی معارف کا مزا*
*غرق اس میں تادم آخر رہوں یہ ہے دعا*

*حافظ قرآن نہ بننے کا مجہ کو کب غم نہیں*
*عاشق قرآن ہوں یہ رتبہ بہی مجہ کو کچہ کم نہیں*

http://raziyatulabrarbhatkal.blogspot.in/2017/09/blog-post_5.html?m=1

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں