🍃بســم الله الرحـمـن الرحــيـم 🍃
*(تراویح اور ہم مسلمان*(قسط 1
از: حضرت مولانا محمد شفیع قاسمی بہٹکلی
رمضان المبارک کا مہینہ سال میں ایک بار آتا ہے، اس کی بڑی فضیلتیں وارد ہوئی ہیں، اس مہینہ میں انسانیت کا دستور العمل قرآن مجید نازل ہوا، گناہوں کی معافی کا مہینہ ہے، نیک عمل کے ثواب میں اضافہ کیا جاتا ہے، اگر کوئی مسلمان اس مہینہ میں بہی اپنی بخشش کی کوشش نہ کریں تو اس سے بڑا محروم اور بد نصیب کوئی نہیں ہو سکتا، روزہ اور تراویح اس مہینہ کی خاص عبادت ہیں، روزہ فرض ہے اور تراویح سنت ہے، روزہ پوشیدہ عمل ہے، روزہ رکہا یا نہ رکہا یا کس طرح رکہا، سب کو معلوم نہیں ہوسکتا، مگر تراویح ظاہری عمل ہے، تراویح پڑہنے یا نہ پڑہنے کا علم پورے محلہ والوں کو ہو جاتا ہے، افسوس کہ تراویح کے ساتہ ہم مسلمانوں کا سلوک بہت ہی برا ہے، کچہ لوگ تراویح کا انکار ہی کرتے ہیں، کوئی الگ نماز نہیں سمجہتے، کچہ لوگ تراویح کو نفل کہہ کر اس کو حقیر سمجہتے ہیں، عشاء کی نماز میں مسجدیں بہری رہتی ہیں، عشاء کی نماز کے بعد کچہ لوگ نکل جاتے ہیں، جب تراویح شروع ہوتی ہے تو چار رکعات کے بعد کچہ لوگ نکل جاتے ہیں، پہر آٹہ رکعات کے بعد ایک بڑی جماعت نکل جاتی ہے، اور اس کو کار ثواب سمجہتی ہے، حفاظ کرام اپنی خوبصورت آواز سے قرآن مجید سناتے ہیں، مگر مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد گہر روانہ ہو چکی ہوتی ہیں، بیس رکعات تراویح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ ہی سے باجماعت پڑہی جاتی ہے، اس کی بڑی فضیلت وارد ہوئی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شجص ایمان کے ساتہ اور ثواب کی امید میں تراویح پڑہے اس کے گناہ معاف کر دئے جاتے ہیں، بیس رکعات تراویح صحابہ، تابعین، تبع تابعین، امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد ابن حنبل اور جمہور علماء و فقہاء کا عمل رہا ہے. آٹہ رکعات پڑہ کرچلے جانے والوں کے متعلق ایک سوال کے جواب میں سعودی عالم شیخ محمد بن صالح عثیمین لکہتے ہیں
سوال: اذا صلى الانسان خلف امام يزيد على احدى عشرة ركعة، فهل يوافق الامام ام ينصرف اذا اتم احدى عشرة؟
جواب: السنة ان يوافق الامام، لانه اذا انصرف قبل تمام الامام لم يحصل له اجر قيام الليل. والرسول صلى الله عليه وسلم، قال من قام مع الامام حتى ينصرف كتب له قيام ليلة.
(48 سؤالا فى الصيام، ص 19)
ترجمہ:
سوال: جب کوئی بیس رکعات تراویح پڑہنے والے امام کے پیچہے تراویح پڑہے تو وہ گیارہ رکعات پڑہ کر جائے یا بیس رکعات پوری کرے؟
جواب: سنت یہ ہے کہ امام کی موافقت کرے یعنی بیس رکعات پڑہے اسلئے کہ امام کی نماز پوری ہونے سے پہلے جائے گا تو اس کو پوری تراویح کا ثواب نہیں ملے گا، اسلئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو آخر تک امام کے ساتہ تراویح پڑہے گا، اس کو پوری رات تراویح پڑہنے کا ثواب ملےگالہذا جمیع مسلمانوں سے پرخلوص درخواست ہے کہ اس مہینہ کو غنیمت سمجہ کر بیس رکعات تراویح پڑہ کر ہی جائیں. انشاء اللہ بیس رکعات فرض نماز پڑہنے کا ثواب ملے گا، اتنی بابرکت اور ثواب والی نماز اور تلاوت قرآن پاک کو چہوڑ کر گہر یا بازار جانا اللہ کو راضی کرنے والا عمل نہیں ہو سکتا، مریض اور معذور کے لئے گنجائش ہوسکتی ہے
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
🌴🌴 *اہل السنة والجماعة چینل اداره رضية الابرار بہٹکل، کرناٹک، ہند* 🌴🌴
اہل السنة والجماعة کے عقائد ومسلک جاننے اور اہل السنة والجماعة کی کتابیں پی ڈی
ایف حاصل کرنے کے لئے کلک کریں
https://raziyatulabrarbhatkal.blogspot.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں