پیر، 19 جون، 2017

بیس رکعات تراویح اور عمل صحابہ


🍃بســم الله الرحـمـن الرحــيـم 🍃

🌸بيس ركعات تراویح اور عمل صحابہ🌸

💎عن الاعمش عن زید بن وهاب قال عبد الله بن مسعود يصلى لنا فى شهر رمضان قال الاعمش كان يصلى عشرين ركعة ويوتر بثلاث.

 (قيام الليل لمحمد بن نصر المروزى،عمدة القارى)

حضرت اعمش رحمہ اللہ حضرت زید بن وہب رحمہ اللہ کے واسطہ سے فرماتے ہیں کہ صحابی رسول حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہم لوگوں کو رمضان المبارک کے مہینہ میں تروایح پڑہاتے تہے اور وہ بیس رکعات پڑہاتے تہے.

🍃اس کی سند صحیح ہے اور تمام راوی صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے ہیں.

      ‼غیر مقلدین کا اعتراض‼:

یہ روایت ضعیف ہے. پہلا جز امام اعمش کے عنعنہ کی وجہ سے ضعیف ہے دوسرا جز منقطع ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے کیونکہ امام اعمش نے انس رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی صحابی کو نہیں دیکہا ہے نہ ہی کسی صحابی سے ملاقات کی ہے.

✔   جواب: پہلے اعتراض کا جواب یہ ہے کہ امام اعمش کی حضرت زید بن وہب رحمہ اللہ سے ملاقات ثابت ہے. جو امام بخاری رحمہ اللہ کی شرط ہے. اور امام مسلم کی شرط کے مطابق صرف زمانہ پانا کافی ہے. اسی لئے امام بخاری اور امام مسلم نے عن الاعمش عن زید بن وهب کی روایت کو صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں قبول کیا ہے. امام حاکم نے بہی صحیح کہا ہے اور علامہ ذہبی ان کے عنعنہ کو علی شرط البخاری ومسلم لکہا ہے.

➖لہذا سلفیوں کا عنعنہ کی وجہ سے ضعیف کہنا فن اسماء رجال سے ناواقفیت کی دلیل ہے.🤔🤔

✔ دوسرا اعتراض کے دوسرا جز منقطع ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے. یہ بہی باطل ہے. اسلئے کہ حضرت  زید بن وہب کے واسطہ سے تراویح کا واقعہ نقل کر رہے ہیں تو رکعات کے  جز کو ان کے واسطہ کے بغیر کہنا کہاں کی عقلمندی ہے؟

 اگر بالفرض منقطع مان بہی لیا جائے تو محدثین اس کو ضعیف نہیں مانتے.

سلفی محدث "عبد الرحمن مبارکپوری" اور "ناصر الدین البانی" بہی مرسل حدیثوں کو اپنے مسلک کے مطابق ہو تو صحیح یا حسن مانتے ہیں.

*عبد الرحمن مبارکپوری*  لکہتے ہیں:

📝 فحديث طاوس هذا مرسل لان طاوسا تابعى واسناده حسن  والحديث المرسل حجة عند الامام ابى حنيفة ومالك واحمد مطلقا، وعند الشافعى اذا اعتضد بمجيئه من وجه آخر يباين الطريق الاولى مسندا كان او مرسل.

 (تحفة الاحوذى)

حضرت طاوس کی مرسل حدیث "كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يضع يده اليمنى على يده اليسرى ثم يشد بينهما على صدره وهو فى الصلاة" جو مراسیل ابی داود میں موجود ہے. سلفی محدث "ناصر الدین البانی" اس حدیث کے متعلق لکہتے ہیں

 هذا حديث مرسل وهو حديث صحيح.

(صحيح ابى داؤد737)

امام ابوداود مقدمہ علی المراسیل میں لکہتے ہیں: 📝
واما المراسيل فقد كان يحتج بها العلماء فيما مضى مثل سفيان الثورى ومالك والاوزاعى حتى جاء الشافعى فتكلم فيها.

http://raziyatulabrarbhatkal.blogspot.in/2017/06/blog-post_83.html?m=1

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

🌴🌴 *اہل السنة والجماعة چینل اداره رضية الابرار بہٹکل، کرناٹک، ہند* 🌴🌴

اہل السنة والجماعة کے صحیح عقائد ومسلک جاننے اور اہل السنة والجماعة کی کتابیں پی ڈی ایف حاصل کرنے کے لئے کلک کریں

http://raziyatulabrarbhatkal.blogspot.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں