🍃بســم الله الرحـمـن الرحــيـم 🍃
*جامعہ اسلامیہ بہٹکل*
مورخ بہٹکل، استاذ الاساتذہ حضرت مولانا محمد شفیع جامعی قاسمی مدظلہ (ناظم ادارہ رضیة الابرار بہٹکل، وسابق مہتمم ونائب ناظم جامعہ اسلامیہ بہٹکل) لکہتے ہیں
پہلی صدی ہجری سے اب تک بہٹکل میں دینی تعلیم کا سلسلہ جاری رہا. ہر دور میں علماء اور ذمہ داران قوم نے تعلیم کے مراکز قائم کئے. 1342 عیسوی میں ابن بطوطہ یہاں تیرہ اور تیئس مدرسوں کا تذکرہ کرتا ہے. دنیا کی ہر چیز کو زوال ہے. مرور زمانہ اور اس وقت کے اشخاص کے جانے کے بعد ان اداروں اور مراکز کو بہی زوال آتا گیا. 1919 عیسوی میں دینی تعلیم کی غرض سے ایک خالص دینی مدرسہ بنام *مدرسہ اسلامیہ بہٹکل* قائم کیا گیا تہا. اس وقت انجمن حامی مسلمین کے نام سے ایک ادارہ بہی موجود تہا. جس کے تحت ایک اسکول قائم کیا گیا تہا، جس میں دنیوی تعلیم کے ساتہ اسلامی تعلیم کا بہی اہتمام کیا گیا تہا. جس کا قوم پر اچہا اثر قائم ہوا. عصری ودینی علوم سے اراستہ افراد انجمن سے پیدا ہوئے. حکومت سے گرانٹ کے حصول کے بعد حکومتی نصاب کا اثر زیادہ ہوگیا اور اسلامی رنگ مغلوب ہونے لگا اور قوم میں جماعتی اختلاف بہی پیدا ہوا تو اس وقت قوم کے بعض درد مندوں کو فکر ہوئی کہ بہٹکل میں خالص دینی مدرسہ ہونا چاہئے. اس کے لئے محنتیں اور فکریں ہونے لگیں. بالآخر 1962 عیسوی میں جامعہ اسلامیہ بہٹکل کے نام سے ایک خالص دینی مدرسہ قائم کیا گیا. جس سے قوم میں اسلامی تعلیمات عام ہوئیں، بہت سے حفاظ قرآن اور عالم دین پیدا ہوئے. جامعہ کا تخیل محترم ڈاکٹر علی بن شہاب الدین صاحب ملپا مدظلہ نے پیش کیا. اس کو قائم کرنے اور اس کو ترقی دینے میں محترم ڈاکٹرعلی بن شہاب الدین صاحب ملپا مدظلہ کے ساتہ محترم سعدا محمد جفری بن محمد اسماعیل صاحب مرحوم، و محترم دامدا ابو (D. A) اسماعیل بن حسین مرحوم، ومحترم دامدا ابو (D. A) ابوبکر بن حسن صاحب، و محترم محی الدین بن محمد امین صاحب منیری مرحوم، و محترم ارمار (بدلی) زین العابدین صاحب مرحوم، و محترم عثمان حسن جوباپو مرحوم، و محترم قاضیا مولی صاحب مرحوم، ومحترم شاہ بندری (امریکن) محسن بن حاجی حسن وغیرہم کا نمایاں کردار رہا ہے. اس کا افتتاح 20 اگست 1962 عیسوی کو مبلغ دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا ارشاد احمد صاحب قاسمی رحمة الله عليه(خلیفہ مجاز مصلح الامت حضرت مولانا شاہ وصی اللہ فتحپوری) کے ہاتہوں عمل میں آیا اور اس کے پہلے استاد(معتمد تعلیمات) حضرت مولانا عبد الحمید ندوی رحمة الله علیہ (ساکن اترپردیش) مقرر ہوئے. اولین طالب علم عبد اللہ بن محمد کوبٹے، دوسرا طالب علم نذیر احمد بن علی اکبر سعدا اور تیسرا طالب علم راقم محمد شفیع قاسمی بن ڈاکٹر علی ملپا تہے اور ابتداء میں تعلیم حاصل کر کے پہلی مرتبہ عالم بننے والے مولانا ملا اقبال بن حسین صاحب و مولانا غزالی بن قاضی ابوبکر صاحب خطیبی و مولانا محمد صادق بن عبد القادر باشاہ صاحب اکرمی تہے. جامعہ کا پورے علاقہ پر بہت گہرا اثر قائم ہوا. بہٹکل و اطراف بہٹکل کی اکثر مساجد کے ائمہ و خطیب و قاضی صاحبان جامعہ اسلامیہ بہٹکل کے تعلیم یافتہ ہیں. جامعہ کے تحت مکاتیب و ملحقہ مدارس چل رہے ہیں.
(تاریخ بہٹکل پر ایک نظر، ص 82، 83)
http://raziyatulabrarbhatkal.blogspot.in/2017/08/blog-post_14.html?m=1
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
🌴🌴 *تاريخ جامعہ چینل* 🌴🌴
جامعہ سلامیہ بہٹکل کی تاریخ جاننے کے لئے تاریخ جامعہ چینل میں جوین ہوجائیں.
جوین ہونے کے لئے پہلے ٹیلی گرام ڈنلوڈ کرین پہر اس لنک پر کلک کریں.
https://telegram.me/tareekhejamia
*جامعہ اسلامیہ بہٹکل*
مورخ بہٹکل، استاذ الاساتذہ حضرت مولانا محمد شفیع جامعی قاسمی مدظلہ (ناظم ادارہ رضیة الابرار بہٹکل، وسابق مہتمم ونائب ناظم جامعہ اسلامیہ بہٹکل) لکہتے ہیں
پہلی صدی ہجری سے اب تک بہٹکل میں دینی تعلیم کا سلسلہ جاری رہا. ہر دور میں علماء اور ذمہ داران قوم نے تعلیم کے مراکز قائم کئے. 1342 عیسوی میں ابن بطوطہ یہاں تیرہ اور تیئس مدرسوں کا تذکرہ کرتا ہے. دنیا کی ہر چیز کو زوال ہے. مرور زمانہ اور اس وقت کے اشخاص کے جانے کے بعد ان اداروں اور مراکز کو بہی زوال آتا گیا. 1919 عیسوی میں دینی تعلیم کی غرض سے ایک خالص دینی مدرسہ بنام *مدرسہ اسلامیہ بہٹکل* قائم کیا گیا تہا. اس وقت انجمن حامی مسلمین کے نام سے ایک ادارہ بہی موجود تہا. جس کے تحت ایک اسکول قائم کیا گیا تہا، جس میں دنیوی تعلیم کے ساتہ اسلامی تعلیم کا بہی اہتمام کیا گیا تہا. جس کا قوم پر اچہا اثر قائم ہوا. عصری ودینی علوم سے اراستہ افراد انجمن سے پیدا ہوئے. حکومت سے گرانٹ کے حصول کے بعد حکومتی نصاب کا اثر زیادہ ہوگیا اور اسلامی رنگ مغلوب ہونے لگا اور قوم میں جماعتی اختلاف بہی پیدا ہوا تو اس وقت قوم کے بعض درد مندوں کو فکر ہوئی کہ بہٹکل میں خالص دینی مدرسہ ہونا چاہئے. اس کے لئے محنتیں اور فکریں ہونے لگیں. بالآخر 1962 عیسوی میں جامعہ اسلامیہ بہٹکل کے نام سے ایک خالص دینی مدرسہ قائم کیا گیا. جس سے قوم میں اسلامی تعلیمات عام ہوئیں، بہت سے حفاظ قرآن اور عالم دین پیدا ہوئے. جامعہ کا تخیل محترم ڈاکٹر علی بن شہاب الدین صاحب ملپا مدظلہ نے پیش کیا. اس کو قائم کرنے اور اس کو ترقی دینے میں محترم ڈاکٹرعلی بن شہاب الدین صاحب ملپا مدظلہ کے ساتہ محترم سعدا محمد جفری بن محمد اسماعیل صاحب مرحوم، و محترم دامدا ابو (D. A) اسماعیل بن حسین مرحوم، ومحترم دامدا ابو (D. A) ابوبکر بن حسن صاحب، و محترم محی الدین بن محمد امین صاحب منیری مرحوم، و محترم ارمار (بدلی) زین العابدین صاحب مرحوم، و محترم عثمان حسن جوباپو مرحوم، و محترم قاضیا مولی صاحب مرحوم، ومحترم شاہ بندری (امریکن) محسن بن حاجی حسن وغیرہم کا نمایاں کردار رہا ہے. اس کا افتتاح 20 اگست 1962 عیسوی کو مبلغ دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا ارشاد احمد صاحب قاسمی رحمة الله عليه(خلیفہ مجاز مصلح الامت حضرت مولانا شاہ وصی اللہ فتحپوری) کے ہاتہوں عمل میں آیا اور اس کے پہلے استاد(معتمد تعلیمات) حضرت مولانا عبد الحمید ندوی رحمة الله علیہ (ساکن اترپردیش) مقرر ہوئے. اولین طالب علم عبد اللہ بن محمد کوبٹے، دوسرا طالب علم نذیر احمد بن علی اکبر سعدا اور تیسرا طالب علم راقم محمد شفیع قاسمی بن ڈاکٹر علی ملپا تہے اور ابتداء میں تعلیم حاصل کر کے پہلی مرتبہ عالم بننے والے مولانا ملا اقبال بن حسین صاحب و مولانا غزالی بن قاضی ابوبکر صاحب خطیبی و مولانا محمد صادق بن عبد القادر باشاہ صاحب اکرمی تہے. جامعہ کا پورے علاقہ پر بہت گہرا اثر قائم ہوا. بہٹکل و اطراف بہٹکل کی اکثر مساجد کے ائمہ و خطیب و قاضی صاحبان جامعہ اسلامیہ بہٹکل کے تعلیم یافتہ ہیں. جامعہ کے تحت مکاتیب و ملحقہ مدارس چل رہے ہیں.
(تاریخ بہٹکل پر ایک نظر، ص 82، 83)
http://raziyatulabrarbhatkal.blogspot.in/2017/08/blog-post_14.html?m=1
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
🌴🌴 *تاريخ جامعہ چینل* 🌴🌴
جامعہ سلامیہ بہٹکل کی تاریخ جاننے کے لئے تاریخ جامعہ چینل میں جوین ہوجائیں.
جوین ہونے کے لئے پہلے ٹیلی گرام ڈنلوڈ کرین پہر اس لنک پر کلک کریں.
https://telegram.me/tareekhejamia
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں