*گمنام مگر بلند مقام مربی شخصیت حضرت ڈاکٹر علی ملپا صاحب بہٹکلی مدظلہ*
بقلم: مولانا سید محمود حسن حسنی ندوی (نائب ایڈیٹر “تعمیر حیات”، لکھنؤ)
*عارف باللہ حضرت ڈاکٹر علی ملپا بھٹکلی مدظلہ سلسلۂ تھانوی کی عظیم المرتبت شخصیت اور یادگار اسلاف ہیں، جن کے پاس بیٹھ کر اللہ یاد آتا ہے، جن کو دیکھ کر ایمان تازہ ہوتا ہے ، مصلح الامت حضرت مولانا شاہ وصی اللہ فتح پوری الہ آبادیؒ اور محی السنہ حضرت مولانا شاہ ابرارالحق حقی ہردوئیؒ کے خلیفہ اور ایک صاحب دل اور قوی النسبت بزرگ ہیں ،جامعہ اسلامیہ (بھٹکل) کے بانی، صدر اور سرپرست ہیں*
*حضرت ڈاکٹر صاحب مدظلہ 1920 ء میں ساحل سمندر پر واقع بستی بھٹکل (کاروار ،کرناٹک ) میں قوم نوایت میں پیداہوئے ، کچھ یمنی خاندان اسلام کے فروغ اور تجارت کی غرض سے ہندوستان آئے اورساحل سمندر پرآباد ہوئے تھے، ان خاندانوں نے اسلامی تعلیمات اورعربی خصوصیات کو باقی رکھنے کا اہتمام کیا، انہی خاندانوں میں حضرت ڈاکٹر صاحب مدظلہ کا خاندان بھی ہے*
*حضرت ڈاکٹر صاحب مدظلہم کو بچپن سے ہی دینی مزاج قدرت سے ودیعت ہواتھا ،کھیل وغیرہ کی طرف طبیعت مائل نہ ہوتی ،اور لغو کام سے بھی دور رہتے، ریڈیووغیرہ کو بھی کبھی ہاتھ نہیں لگایا ، کچھ تعلیم حاصل کی اور پھر تجارت اور ملازمت کی، اور کلکتہ میں ہومیوپیتھ طریقۂ علاج کا کورس مکمل کیا اور مہارت پیداکی ،مدراس ممبئی ،کلکتہ ،اور چٹ گاؤں (بنگلہ دیش ) میں ملازمت اور تجارت کی اور آخرمیں بزرگوں کے مشورے سے اپنے وطن بھٹکل میں ہی ہومیوپیتھ علاج شروع کردیا ،ان تمام مشغولیات کے ساتھ وہ اپنی اصلاح اور دینی استفادے کی فکر سے کبھی غافل نہ ہوئے، اس کے لیے وہ شمالی ہندوستان کے پر مشقت سفر کرتے، اور وہاں کے اکابر اہل علم ودین سے مستفید ہوتے، اورکئی کئی دن قیام کرتے اور ان کی ہدایات وتلقینات پر عمل پیراہوکر باطنی ترقی میں گامزن ہوتے، مولانا عبدالحمید ندوی بارہ بنکوی مرحوم سے دینیات کی تعلیم حاصل کی ،حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی خدمت میں حاضری کا داعیہ پیداہوا، لیکن اس وقت حضرت حکیم الامت علالت وضعف کے اس مرحلہ میں تھے کہ وہ اپنے خلفاء کی طرف مریدین وطالبین سلوک کو رجوع کرنے کی ہدایت دے رہے تھے کہ جس کو ان میں جس سے مناسبت ہو ان سے رجوع کرکے مستفید ہو،اس لیے ان کی حیات میں سفر کا ارادہ نہ کرسکے ،حضرت کی وفات کے بعد ان کے خلیفہ حضرت شاہ محمد عیسیٰ الہ آبادی ؒسے مراسلت کے ذریعہ اصلاحی تعلق قائم کیا،اور ان کی ہدایات پر عمل پیراہوئے، لیکن قریبی عرصہ میں ان کا بھی سانحۂ ارتحال پیش آگیا، حضرت شاہ محمد عیسیٰ الہ آبادیؒ کا حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے خلفاء وحلقہ ارادت میں اونچا مقام تھا اوران کومرجعیت حاصل تھی، وہ ان گیارہ لوگوں میں بھی سر فہرست تھے جن سے حضرت نے اپنے منتسبین ومتوسلین کو رجوع کرنے اور رہنمائی لینے کو کہا تھا،ان کی وفات کے بعد اسی فہرست کے اہم رکن حاجی حقدادخان علیہ الرحمہ سے رجوع کیا اور بیعت کی،حضرت حاجی صاحب کا تعلق لکھنؤ سے تھا، لکھنؤ کے اس سفر میں حضرت ڈاکٹر صاحب مدظلہ نے لکھنؤ کی بر گزیدہ شخصیات اورندوہ کے اکابرین کی زیارت کی، اس وقت لکھنؤ میں امام اہل سنت مولانامحمد عبد الشکور فاروقیؒ،مولاناعبدالماجد دریابادیؒ،مولاناعبد الباری ندویؒ،مولانا ڈاکٹرسید عبدالعلی حسنیؒ اور دوسری بڑی شخصیات تھیں،جہاں تک مولانا عبدالماجد دریابادی کاتعلق ہے وہ ان کی محسن شخصیت ہیں جن سے ان کو اس راہ میں چلنے کا حوصلہ کلکتہ کے زمانۂ قیام میں ملا تھا جب وہ کلکتہ میں مقیم تھے ، پھر یہ تعلق اتنا بڑھا کہ ڈاکٹر صاحب نے دریاباد کے بھی سفر کیے،اور مولانا دریابادی جن کے یہاں اوقات کی تقسیم تھی اور ملاقات کے لیے محدود وقت دے دیا کرتے تھے ، تاکہ علمی وتصنیفی مشاغل متأثر نہ ہوں ، آپ کے لیے دوسرے خانگی اوقات میں کمی کرکے وقت فارغ کرتے ، اور ہرہر قدم پر آپ کو مولانا دریابادی کی رہنمائی حاصل رہی ، حضرت حاجی صاحب لکھنوی کا بھی تھوڑے عرصہ میں انتقال ہوگیا ، آپ کو فکر دامن گیر ہوئی کہ اب کس کے دامن فیض سے وابستہ ہوا جائے، حضرت مولانا سید سلیمان ندویؒ بزم اشرف کے وہ روشن چراغ تھے جن کا دور دور شہرہ تھا اور باطنی کمالات کے ساتھ علم وفضل میں بھی ان کا ڈنکا بج رہا تھا، اور وہ حضرت دریابادیؒ کے بھی مخدوم تھے ، چناچہ حضرت سید صاحب سے درخواست بیعت کی اور وہ قبول ہوئی ،لیکن ۱۹۵۰ ء میں وہ پاکستان منتقل ہوئے اور آپ کو اپنے رفیق سفر علم و معرفت مولانا عبد الباری ندویؒ سے رجوع کرنے کو کہا، اب آپ نے بزم اشرف کے اس روشن چراغ مولانا عبدالباری ندویؒ کی شخصیت بابرکت کوغنیمت جانا ، اور ان کی خدمت میں آمد ورفت جاری رکھی ،اور انہی سے مشورے لیتے رہے ،بالاخر 1953ء میں حضرت سید سلیمان ندوی نے پاکستان میں وفات پائی اور آپ کو رابطہ کے تعلق کے ساتھ ضابطہ کی بھی فکر ہوئی ،اور مولانا عبدالباری ندویؒ حضرت شاہ وصی اللہ الہ آبادیؒ کے وطن فتح پور تال نرجا اعظم گڑھ میں چار ہفتہ گزار کر آچکے تھے اور جو کچھ دیکھاتھا اس کے مشاہدات قلم بند کردیے تھے جو صدق کے صفحات کی زینت بن چکے تھے، ان کی شخصیت سے وہ متأ ثر تھے، حضرت ڈاکٹر صاحب مدظلہ کو مولانا عبدالباری ندوی ؒ نے حضرت شاہ صاحب سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا ، اور ان کی خدمت میں وہ حاضر ہوکر بیعت سے مشرف ہوئے ، وہ اپنا وطن فتح پور اعظم گڑھ چھوڑ کر الہ آباد میں مقیم ہوگئے تھے ، ڈاکٹر صاحب مدظلہ الہ آباد حاضر ہوئے اور ان کی ہدایات وکمالات باطنی وظاہری سے مستفید ہوئے ،بالاخر یہ اعتماد حاصل کیا کہ مجاز بیعت سے سرفرازکیے گئے، حضرت ڈاکٹر صاحب الہ آباد آکر کئی کئی ہفتے قیام فرماتے اور حضرت کی آپ پر بڑی نظر عنایت تھی، ایک بار سر کے درد کی تکلیف کی وجہ سے مجلس میں حاضر نہ ہوسکے تو حضرت مصلح الامت کو فکر ہوئی اور خود تیل لاکر ان کے سر پر اپنے ہاتھ سے مالش کی*
*حضرت مولانا شاہ وصی اللہ الہ آبادیؒ کے مشورے اور تلقین سے بھٹکل میں آپ نے اصلاحی اور دعوتی وتعلیمی کام آغاز کیا ، چنانچہ شاہدلی مسجد میں آپ کتابی درس دینے لگے ، اور ایک حلقہ بن گیا ، اور مدرسہ کے قیام کی بھی ترغیب جاری رکھی اور جامعہ اسلامیہ کی تاسیس پڑی، 1967ء میں مولانا شاہ وصی اللہ الہ آبادی کا سانحٔہ ارتحال پیش آگیا اور باوجود اجازت وخلافت سے سرفراز ہونے کے اپنے کو استفادۂ مزید سے مستغنی نہیں سمجھا ، حضرت مولانا شاہ ابرارالحق حقیؒ بزم اشرف کے وہ روشن چراغ تھے جو الہ آباد میں حضرت شاہ وصی اللہ الہ آبادی کی خدمت میں حاضری کا التزام رکھتے تھے ، اور مولانا عبد الباری ندویؒ بھی مولاناشاہ ابرارالحق حقیؒ کو بہت اہمیت دیتے تھے ، اور بیعت وسلوک کے خواہش مند لوگوں کو ان کی طرف متوجہ کرتے تھے ، چنانچہ ڈاکٹر صاحب مدظلہ نے مولانا شاہ ابرارالحق حقیؒ سے مناسبت محسوس کی اور ان کی خدمت میں حاضر ہوکر بیعت ہوئے ، ہردوئی کے کئی سفر کیے اور مدرسہ اشرف المدارس میں اپنے کئی لڑکوں کو داخل بھی کیا اور حضرت محی السنہ مولانا شاہ ابرارالحق صاحبؒ کو بھٹکل بھی کئی بار دعوت دی اور انہوں نے بھٹکل کے سات سفر کیے اور جامعہ اسلامیہ کے سرپرست بھی بنائے گئے ، اس طرح حضرت مولانا شاہ ابرارالحق صاحب کی توجہ بھٹکل کی طرف بڑھتی گئی ،اور اہل بھٹکل ہردوئی کا سفر کرتے ، اوراپنے لڑکوں کو قرآن مجید کی تعلیم کے لیے مولانا کی سرپرستی میں دیتے ، مولانا نے جامعہ اسلامیہ میں درجۂ حفظ قائم کرنے کی ترغیب دی ، اور اس کے قائم ہونے پر اپنے ایک معتمد علیہ حافظ ومعلم قرآن کریم حافظ کبیرالدین صاحب کو بھٹکل بھیجا جنہوں نے حفظ کا بہترین نظام قائم کیا ،اور اچھے حفاظ تیار کیے ، جن کے ذریعہ جگہ جگہ حفظ کے مدارس قائم ہورہے ہیں*
*حضرت ڈاکٹر صاحب مدظلہ کو حضرت شاہ وصی اللہ صاحب الہ آبادیؒ سے اجازت وخلافت حاصل تھی لیکن حضرت مولاناابرارالحق حقی نے بھی آپ کو خلافت دی اور مجازبیعت بنایا، آپ ان کے شروع کے چند خلفا میں سے ایک ہیں ، آپ نے حضرت مولانا سے برابر مراسلت بھی جاری رکھی ، اور مشورے بلکہ ان کے انشراح کے بغیر کوئی کام کرنا مناسب نہ سمجھا ، آپ کے دوسرے مشائخ وعلما سے بھی روابط تھے ، اور ان کی خدمت میں بھی خطوط ارسال کرتے اور دعا کے طالب ہوتے ، لیکن مشورہ اپنے مرشد حضرت مولانا ابرارالحق صاحب سے ہی لیتے اور ان کا مشورہ یا تلقین ہوتی اس پر عمل پوری طرح عمل پیرا ہوتے حالانکہ عمر میں حضرت ڈاکٹر صاحب حضرت محی السنہ سے بڑے تھے ، ڈاکٹر مدظلہ میں زہد عیسیٰ برابر جلوہ گررہا ، یہ ان کے شیخ اول حضرت شاہ محمد عیسیٰ الہ آبادی کی نسبت کا بھی اثر ہے ، جن پر ان کے نام کا اثر نمایاں تھا، ڈاکٹر صاحب مدظلہ شہرت پسندی کو بہت ناپسند کرتے ہیں، اور قناعت کو اختیار کرتے ہیں، اور فرماتے ہیں کہ صبح اٹھ کر عافیت ،سر چھپانے کو گھر اور دو وقت کا کھانا مل جائے پھر اس سے زیادہ کیا چاہیے ، بقدر کفاف روزی ان کا حال اور ان کی دعا ہے ، کمانے کی ترغیب اتنی دیتے ہیں کہ دوسرے کا محتاج نہ ہو اور دوسرے پر بارنہ بنے ، اخفائے حال ان کا خاص وصف ہے اور اظہار حا ل سے ان کو طبعا ًمناسبت نہیں ہے ، ایک موقع پر جب وہ اپنے شیخ حضرت مولانا ابرارالحق حقی صاحبؒ کی ممبئی کی مجلس میں تھے ، اور مجلس کے اختتام پر دعا کی بات آئی حضرت مولانا نے فرمایا: آج دعا کون کرائے گا؟، مجلس پر نظر دوڑائی، فرمایا :آج وہ دعا کرائیں گے جو چھپے رستم ہیں ، اور حضرت ڈاکٹر صاحب مدظلہ العالی کا نام لیا ، وہ ایک کونہ میں چھپے خاموش بیٹھے تھے ، لیکن ارشاد مرشد کی تعمیل کرنی ہی کرنی تھی ، اور مجلس میں انہوں نے دعاکرائی*
*کبر سنی کے باعث جب ہردوئی کا دور دراز سفر مشکل ہونے لگا تو حضرت محی السنہ کے ممبئی بنگلور کے سفر کے منتظر رہتے اور وہاں ان کے قدوم میمنت کو غنیمت جانتے ہوئے خدمت میں حاضر ہوتے ،اور ساتھ رہنے کا بھی اہتما م فرماتے ، جو فکر حضرت محی السنہ پراصلاح عقائد، احیائے سنت اور ازالۂ منکرات کی طاری تھی، ڈاکٹر صاحب مدظلہ نے بھی اس فکر کو اختیار کیا ، چنانچہ اپنے پاس بیٹھنے والوں ،ملنے والوں اور اپنے دائرۂ اختیار میں رہ کر اہل تعلق کو اس کی طرف متوجہ کرتے رہتے ہیں ، اور ظاہر کی اصلاح کے ساتھ باطن کی اصلاح کی طرف توجہ دلاتے ہیں ، اور یہ شعر زبان پر رہتا ہے:*
*قال رابگزار حال شو*
*پیش مرد کامل پامال شو*
*اور توجہ دلاتے ہیں کہ تقوی صالحین کی صحبت میں پیدا ہوتا ہے ، اس لیے اس نیت سے صلحاء کی صحبت میں بیٹھنا چاہیے ، مشائخ کی خدمت میں دوست بن کر اور سننے کے بجائے سنانے کے لیے حاضر ہونے کو بہت برا سمجھتے ہیں ، اور نیازمندانہ حاضری کی طرف متوجہ کرتے ہیں ، نسبتوں کے اظہار کو بھی اچھا نہیں سمجھتے اور کوئی ایسا اظہار کرے تو ان کو سخت تکدر ہوتا ہے، ایک صاحب جو کسی بزرگ کے خلیفہ تھے آکر خود ہی کہہ بیٹھے کہ میں فلاں بزرگ کا خلیفہ ہوں تو سخت تکدر ہوا اور توجہ نہ فرمائی، بلکہ فرمایا: جی چاہتا ہے کہ ان کی اچھی خبر لوں*
*حضرت ڈاکٹر صاحب مدظلہ اپنی اس عمر میں بھی تہجد ، ذکر وغیرہ معمولات کے پورے پابند ہیں اور سب سے زیادہ فکر حسن خاتمہ کی ہے، اس کی بزرگوں سے دعا بھی کراتے ہیں، توکل کے اونچے مقام پرہیں ، اور یہ صفت استغناء کے ساتھ ہے، حالات کے اندر صبروعزیمت اور رضا بالقضا کی صفت سے متصف ہیں ، زبان پر شکایت نہیں ، دل میں کینہ نہیں اور جھوٹ وغیبت کا گزرنہیں ، کوئی اگر ایسا کرتا ہے تو سختی سے روک دیتے ہیں ، امت مسلمہ کے مسائل سے چشم پوشی نہیں کرتے بلکہ دلچسپی رکھتے ہیں ، اور مالداروں کو توجہ دلاتے ہیں کہ وہ اپنے کاروبار کو مستحکم کریں اور صنعتوں کی طرف توجہ کریں تاکہ مسلمان غیروں کےمحتاج نہ ہوں، ملی وانسانی خدمت کے جذبہ نے بھٹکل میونسپلٹی میں حصہ لینے پر آمادہ کیا اور دوتین میعاد اس کے رکن رہے ،حالات سے باخبر رہتے ہیں اور دوسروں کو بھی متوجہ کرتے ہیں کہ فاعتبروا ياأولي الأبصار ، کہ حالات سے سبق لینا چاہیے ، اللہ نے أولي الأبصار اور ایک جگہ أولي الألباب کہا ہے، اس لیے انسان کو عقل وبصیرت سے کام لینا چاہیے اور غور کرنا چاہیے*
*اختلاف اور نزاعی معاملات سے دور رہنے اور اتحاد واتفاق کے کام میں سبقت لے جانے کا مزاج ہے ، دین کی نسبت سے کاموں میں خواہ وہ تبلیغ کے ہوں یا تعلیم کے انہوں نے اس کو استحکام بخشنے اور فروغ دینے میں پورے ایمانی جذبہ سے ہمیشہ کام لیا ، تبلیغی جماعت کا کام جب اس علاقہ میں آیا تو اس کی نصرت کی ، علما کی تقریریں کرائیں ، اور دوسرے ذرائع سے دین کے کاموں کو تقویت پہنچائی*
*ڈاکٹر صاحب مدظلہ کی قدر ومنزلت علماء و مشائخ کے دل میں اس طرح رہی کہ حضرت مولانا علی میاں ندوی ؒ ان کے گھر کئی بار تشریف لے گئے ، اور ان کی نسبتوں کا ہمیشہ بڑا خیال رکھا ، اور ان کے خطوط کا ہمیشہ بڑے اہتمام سے جواب دیا ، خود ڈاکٹر صاحب مدظلہ نے ان کی زیارت وملاقات کے لیے لکھنو کے سفر کیے ، اور ان کی خانقاہ تکیہ رائے بریلی میں اپنے صاحبزادگان واحفاد کو بھیجا ، اور ان کی سرپرستی میں ندوۃالعلماء میں تعلیم دلائی ۔حضرت مولانا قاری امیر حسن صاحب مرحوم جب بھٹکل تشریف لاتے تو ڈاکٹر صاحب مدظلہ کے مکان پر قیام فرماتے اور ان سے بڑا انس محسوس فرما تے*
*مشائخ عصر میں حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا کاندھلوی ؒ ، حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمی ؒ ، حضرت مولانا محمد احمد پرتاب گڑھیؒ کی خدمت میں بھی حاضری دینے کا معمول رکھا اور ان سے مراسلت بھی رکھی، علمائے کبار میں مولانا عبدالباری ندویؒ ، مولاناعبدالماجد دریادی ؒ اور مولاناسید مناظراحسن گیلانیؒ اوردوسرے بہت سے علماء سے خاصا استفادہ کیا اور بڑی توجہات حاصل کیں*
*آخر میں اپنے شیخ حضرت محی السنہ مولانا شاہ ابرارالحق حقی ؒ کی نسبت اور ان کا رنگ غالب آیا ، اور سنت کی احیا ء کا جذبہ اور اہل اللہ کی صحبت سے مستفید ہونے کی طرف اہل تعلق کو متوجہ کیا ، تاکہ لوگوں کے قلوب مادیت کے زنگ سے صاف ہوکر اللہ سے جڑ جائیں ، اور دنیا کی محبت دل سے نکل کر اللہ کی محبت دل میں سما جائے ، اور حضور ﷺ کی سنتوں کی ظاہراً وباطناً پیروی کرکے اللہ کی محبوبیت وولایت کی حلاوت حاصل کی جائے ، کہ اس کے بغیر نہ اندر کا سکون ہے اور نہ باہر کا چین ہے ، اور اللہ کے ذکر سے دل کو معمور کرکے اعمال میں اور زندگی میں نورانیت پیدا کی جائے ، ڈاکٹر صاحب ایک مربی ،مصلح ،مرشد روحانی ہیں جن کی دکان معرفت سے دوائے دل ملتی ہے ، اور ان کی مجلس ایسی ہوتی ہے ،جس میں اہل علم ودانش شرکت کرتے ہیں ،اور ان کے علوم ومعارف وروحانیت اور صحبت فیض اثر سے مستفید ہوتے ہیں ،اطال اللّٰہ بقاءہ ومتعنا اللہ بحیاتہ والمسلمین*
*حضرت ڈاکٹر صاحب مدظلہ کی اصلاحی فکر اور درد و سوز کو سمجھنے کے لیے ان کی صحبت اور مجلس کے علاوہ ان کی وہ مراسلت بھی بڑی مفید ہے جو انھوں نے اپنے شیخ اقدم حضرت علامہ سید سلیمان ندویؒ سے کی تھی، جو حضرت مولانا محمد اشرف سلیمانی پشاوری کی کتاب “سلوک سلیمانی یا شاہراہ معرفت” میں تقریباً سو صفحات پر مشتمل ہے اور مختلف مشائخ سے ان کی مراسلت کو ان کے مختصر تذکرہ کے ساتھ ان کے بڑے صاحبزادے اور صاحب علم و فضل شخصیت مولانا محمد شفیع ملپا قاسمی نے ایک مستقل کتاب میں پیش کیا ہے*
پی ڈی ایف میں پڑہنے اور محفوظ کرنے کے لئے کلک کریں
https://raziyatulabrarbhatkal.blogspot.in/2017/07/blog-post_66.html?m=1
بقلم: مولانا سید محمود حسن حسنی ندوی (نائب ایڈیٹر “تعمیر حیات”، لکھنؤ)
*عارف باللہ حضرت ڈاکٹر علی ملپا بھٹکلی مدظلہ سلسلۂ تھانوی کی عظیم المرتبت شخصیت اور یادگار اسلاف ہیں، جن کے پاس بیٹھ کر اللہ یاد آتا ہے، جن کو دیکھ کر ایمان تازہ ہوتا ہے ، مصلح الامت حضرت مولانا شاہ وصی اللہ فتح پوری الہ آبادیؒ اور محی السنہ حضرت مولانا شاہ ابرارالحق حقی ہردوئیؒ کے خلیفہ اور ایک صاحب دل اور قوی النسبت بزرگ ہیں ،جامعہ اسلامیہ (بھٹکل) کے بانی، صدر اور سرپرست ہیں*
*حضرت ڈاکٹر صاحب مدظلہ 1920 ء میں ساحل سمندر پر واقع بستی بھٹکل (کاروار ،کرناٹک ) میں قوم نوایت میں پیداہوئے ، کچھ یمنی خاندان اسلام کے فروغ اور تجارت کی غرض سے ہندوستان آئے اورساحل سمندر پرآباد ہوئے تھے، ان خاندانوں نے اسلامی تعلیمات اورعربی خصوصیات کو باقی رکھنے کا اہتمام کیا، انہی خاندانوں میں حضرت ڈاکٹر صاحب مدظلہ کا خاندان بھی ہے*
*حضرت ڈاکٹر صاحب مدظلہم کو بچپن سے ہی دینی مزاج قدرت سے ودیعت ہواتھا ،کھیل وغیرہ کی طرف طبیعت مائل نہ ہوتی ،اور لغو کام سے بھی دور رہتے، ریڈیووغیرہ کو بھی کبھی ہاتھ نہیں لگایا ، کچھ تعلیم حاصل کی اور پھر تجارت اور ملازمت کی، اور کلکتہ میں ہومیوپیتھ طریقۂ علاج کا کورس مکمل کیا اور مہارت پیداکی ،مدراس ممبئی ،کلکتہ ،اور چٹ گاؤں (بنگلہ دیش ) میں ملازمت اور تجارت کی اور آخرمیں بزرگوں کے مشورے سے اپنے وطن بھٹکل میں ہی ہومیوپیتھ علاج شروع کردیا ،ان تمام مشغولیات کے ساتھ وہ اپنی اصلاح اور دینی استفادے کی فکر سے کبھی غافل نہ ہوئے، اس کے لیے وہ شمالی ہندوستان کے پر مشقت سفر کرتے، اور وہاں کے اکابر اہل علم ودین سے مستفید ہوتے، اورکئی کئی دن قیام کرتے اور ان کی ہدایات وتلقینات پر عمل پیراہوکر باطنی ترقی میں گامزن ہوتے، مولانا عبدالحمید ندوی بارہ بنکوی مرحوم سے دینیات کی تعلیم حاصل کی ،حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی خدمت میں حاضری کا داعیہ پیداہوا، لیکن اس وقت حضرت حکیم الامت علالت وضعف کے اس مرحلہ میں تھے کہ وہ اپنے خلفاء کی طرف مریدین وطالبین سلوک کو رجوع کرنے کی ہدایت دے رہے تھے کہ جس کو ان میں جس سے مناسبت ہو ان سے رجوع کرکے مستفید ہو،اس لیے ان کی حیات میں سفر کا ارادہ نہ کرسکے ،حضرت کی وفات کے بعد ان کے خلیفہ حضرت شاہ محمد عیسیٰ الہ آبادی ؒسے مراسلت کے ذریعہ اصلاحی تعلق قائم کیا،اور ان کی ہدایات پر عمل پیراہوئے، لیکن قریبی عرصہ میں ان کا بھی سانحۂ ارتحال پیش آگیا، حضرت شاہ محمد عیسیٰ الہ آبادیؒ کا حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے خلفاء وحلقہ ارادت میں اونچا مقام تھا اوران کومرجعیت حاصل تھی، وہ ان گیارہ لوگوں میں بھی سر فہرست تھے جن سے حضرت نے اپنے منتسبین ومتوسلین کو رجوع کرنے اور رہنمائی لینے کو کہا تھا،ان کی وفات کے بعد اسی فہرست کے اہم رکن حاجی حقدادخان علیہ الرحمہ سے رجوع کیا اور بیعت کی،حضرت حاجی صاحب کا تعلق لکھنؤ سے تھا، لکھنؤ کے اس سفر میں حضرت ڈاکٹر صاحب مدظلہ نے لکھنؤ کی بر گزیدہ شخصیات اورندوہ کے اکابرین کی زیارت کی، اس وقت لکھنؤ میں امام اہل سنت مولانامحمد عبد الشکور فاروقیؒ،مولاناعبدالماجد دریابادیؒ،مولاناعبد الباری ندویؒ،مولانا ڈاکٹرسید عبدالعلی حسنیؒ اور دوسری بڑی شخصیات تھیں،جہاں تک مولانا عبدالماجد دریابادی کاتعلق ہے وہ ان کی محسن شخصیت ہیں جن سے ان کو اس راہ میں چلنے کا حوصلہ کلکتہ کے زمانۂ قیام میں ملا تھا جب وہ کلکتہ میں مقیم تھے ، پھر یہ تعلق اتنا بڑھا کہ ڈاکٹر صاحب نے دریاباد کے بھی سفر کیے،اور مولانا دریابادی جن کے یہاں اوقات کی تقسیم تھی اور ملاقات کے لیے محدود وقت دے دیا کرتے تھے ، تاکہ علمی وتصنیفی مشاغل متأثر نہ ہوں ، آپ کے لیے دوسرے خانگی اوقات میں کمی کرکے وقت فارغ کرتے ، اور ہرہر قدم پر آپ کو مولانا دریابادی کی رہنمائی حاصل رہی ، حضرت حاجی صاحب لکھنوی کا بھی تھوڑے عرصہ میں انتقال ہوگیا ، آپ کو فکر دامن گیر ہوئی کہ اب کس کے دامن فیض سے وابستہ ہوا جائے، حضرت مولانا سید سلیمان ندویؒ بزم اشرف کے وہ روشن چراغ تھے جن کا دور دور شہرہ تھا اور باطنی کمالات کے ساتھ علم وفضل میں بھی ان کا ڈنکا بج رہا تھا، اور وہ حضرت دریابادیؒ کے بھی مخدوم تھے ، چناچہ حضرت سید صاحب سے درخواست بیعت کی اور وہ قبول ہوئی ،لیکن ۱۹۵۰ ء میں وہ پاکستان منتقل ہوئے اور آپ کو اپنے رفیق سفر علم و معرفت مولانا عبد الباری ندویؒ سے رجوع کرنے کو کہا، اب آپ نے بزم اشرف کے اس روشن چراغ مولانا عبدالباری ندویؒ کی شخصیت بابرکت کوغنیمت جانا ، اور ان کی خدمت میں آمد ورفت جاری رکھی ،اور انہی سے مشورے لیتے رہے ،بالاخر 1953ء میں حضرت سید سلیمان ندوی نے پاکستان میں وفات پائی اور آپ کو رابطہ کے تعلق کے ساتھ ضابطہ کی بھی فکر ہوئی ،اور مولانا عبدالباری ندویؒ حضرت شاہ وصی اللہ الہ آبادیؒ کے وطن فتح پور تال نرجا اعظم گڑھ میں چار ہفتہ گزار کر آچکے تھے اور جو کچھ دیکھاتھا اس کے مشاہدات قلم بند کردیے تھے جو صدق کے صفحات کی زینت بن چکے تھے، ان کی شخصیت سے وہ متأ ثر تھے، حضرت ڈاکٹر صاحب مدظلہ کو مولانا عبدالباری ندوی ؒ نے حضرت شاہ صاحب سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا ، اور ان کی خدمت میں وہ حاضر ہوکر بیعت سے مشرف ہوئے ، وہ اپنا وطن فتح پور اعظم گڑھ چھوڑ کر الہ آباد میں مقیم ہوگئے تھے ، ڈاکٹر صاحب مدظلہ الہ آباد حاضر ہوئے اور ان کی ہدایات وکمالات باطنی وظاہری سے مستفید ہوئے ،بالاخر یہ اعتماد حاصل کیا کہ مجاز بیعت سے سرفرازکیے گئے، حضرت ڈاکٹر صاحب الہ آباد آکر کئی کئی ہفتے قیام فرماتے اور حضرت کی آپ پر بڑی نظر عنایت تھی، ایک بار سر کے درد کی تکلیف کی وجہ سے مجلس میں حاضر نہ ہوسکے تو حضرت مصلح الامت کو فکر ہوئی اور خود تیل لاکر ان کے سر پر اپنے ہاتھ سے مالش کی*
*حضرت مولانا شاہ وصی اللہ الہ آبادیؒ کے مشورے اور تلقین سے بھٹکل میں آپ نے اصلاحی اور دعوتی وتعلیمی کام آغاز کیا ، چنانچہ شاہدلی مسجد میں آپ کتابی درس دینے لگے ، اور ایک حلقہ بن گیا ، اور مدرسہ کے قیام کی بھی ترغیب جاری رکھی اور جامعہ اسلامیہ کی تاسیس پڑی، 1967ء میں مولانا شاہ وصی اللہ الہ آبادی کا سانحٔہ ارتحال پیش آگیا اور باوجود اجازت وخلافت سے سرفراز ہونے کے اپنے کو استفادۂ مزید سے مستغنی نہیں سمجھا ، حضرت مولانا شاہ ابرارالحق حقیؒ بزم اشرف کے وہ روشن چراغ تھے جو الہ آباد میں حضرت شاہ وصی اللہ الہ آبادی کی خدمت میں حاضری کا التزام رکھتے تھے ، اور مولانا عبد الباری ندویؒ بھی مولاناشاہ ابرارالحق حقیؒ کو بہت اہمیت دیتے تھے ، اور بیعت وسلوک کے خواہش مند لوگوں کو ان کی طرف متوجہ کرتے تھے ، چنانچہ ڈاکٹر صاحب مدظلہ نے مولانا شاہ ابرارالحق حقیؒ سے مناسبت محسوس کی اور ان کی خدمت میں حاضر ہوکر بیعت ہوئے ، ہردوئی کے کئی سفر کیے اور مدرسہ اشرف المدارس میں اپنے کئی لڑکوں کو داخل بھی کیا اور حضرت محی السنہ مولانا شاہ ابرارالحق صاحبؒ کو بھٹکل بھی کئی بار دعوت دی اور انہوں نے بھٹکل کے سات سفر کیے اور جامعہ اسلامیہ کے سرپرست بھی بنائے گئے ، اس طرح حضرت مولانا شاہ ابرارالحق صاحب کی توجہ بھٹکل کی طرف بڑھتی گئی ،اور اہل بھٹکل ہردوئی کا سفر کرتے ، اوراپنے لڑکوں کو قرآن مجید کی تعلیم کے لیے مولانا کی سرپرستی میں دیتے ، مولانا نے جامعہ اسلامیہ میں درجۂ حفظ قائم کرنے کی ترغیب دی ، اور اس کے قائم ہونے پر اپنے ایک معتمد علیہ حافظ ومعلم قرآن کریم حافظ کبیرالدین صاحب کو بھٹکل بھیجا جنہوں نے حفظ کا بہترین نظام قائم کیا ،اور اچھے حفاظ تیار کیے ، جن کے ذریعہ جگہ جگہ حفظ کے مدارس قائم ہورہے ہیں*
*حضرت ڈاکٹر صاحب مدظلہ کو حضرت شاہ وصی اللہ صاحب الہ آبادیؒ سے اجازت وخلافت حاصل تھی لیکن حضرت مولاناابرارالحق حقی نے بھی آپ کو خلافت دی اور مجازبیعت بنایا، آپ ان کے شروع کے چند خلفا میں سے ایک ہیں ، آپ نے حضرت مولانا سے برابر مراسلت بھی جاری رکھی ، اور مشورے بلکہ ان کے انشراح کے بغیر کوئی کام کرنا مناسب نہ سمجھا ، آپ کے دوسرے مشائخ وعلما سے بھی روابط تھے ، اور ان کی خدمت میں بھی خطوط ارسال کرتے اور دعا کے طالب ہوتے ، لیکن مشورہ اپنے مرشد حضرت مولانا ابرارالحق صاحب سے ہی لیتے اور ان کا مشورہ یا تلقین ہوتی اس پر عمل پوری طرح عمل پیرا ہوتے حالانکہ عمر میں حضرت ڈاکٹر صاحب حضرت محی السنہ سے بڑے تھے ، ڈاکٹر مدظلہ میں زہد عیسیٰ برابر جلوہ گررہا ، یہ ان کے شیخ اول حضرت شاہ محمد عیسیٰ الہ آبادی کی نسبت کا بھی اثر ہے ، جن پر ان کے نام کا اثر نمایاں تھا، ڈاکٹر صاحب مدظلہ شہرت پسندی کو بہت ناپسند کرتے ہیں، اور قناعت کو اختیار کرتے ہیں، اور فرماتے ہیں کہ صبح اٹھ کر عافیت ،سر چھپانے کو گھر اور دو وقت کا کھانا مل جائے پھر اس سے زیادہ کیا چاہیے ، بقدر کفاف روزی ان کا حال اور ان کی دعا ہے ، کمانے کی ترغیب اتنی دیتے ہیں کہ دوسرے کا محتاج نہ ہو اور دوسرے پر بارنہ بنے ، اخفائے حال ان کا خاص وصف ہے اور اظہار حا ل سے ان کو طبعا ًمناسبت نہیں ہے ، ایک موقع پر جب وہ اپنے شیخ حضرت مولانا ابرارالحق حقی صاحبؒ کی ممبئی کی مجلس میں تھے ، اور مجلس کے اختتام پر دعا کی بات آئی حضرت مولانا نے فرمایا: آج دعا کون کرائے گا؟، مجلس پر نظر دوڑائی، فرمایا :آج وہ دعا کرائیں گے جو چھپے رستم ہیں ، اور حضرت ڈاکٹر صاحب مدظلہ العالی کا نام لیا ، وہ ایک کونہ میں چھپے خاموش بیٹھے تھے ، لیکن ارشاد مرشد کی تعمیل کرنی ہی کرنی تھی ، اور مجلس میں انہوں نے دعاکرائی*
*کبر سنی کے باعث جب ہردوئی کا دور دراز سفر مشکل ہونے لگا تو حضرت محی السنہ کے ممبئی بنگلور کے سفر کے منتظر رہتے اور وہاں ان کے قدوم میمنت کو غنیمت جانتے ہوئے خدمت میں حاضر ہوتے ،اور ساتھ رہنے کا بھی اہتما م فرماتے ، جو فکر حضرت محی السنہ پراصلاح عقائد، احیائے سنت اور ازالۂ منکرات کی طاری تھی، ڈاکٹر صاحب مدظلہ نے بھی اس فکر کو اختیار کیا ، چنانچہ اپنے پاس بیٹھنے والوں ،ملنے والوں اور اپنے دائرۂ اختیار میں رہ کر اہل تعلق کو اس کی طرف متوجہ کرتے رہتے ہیں ، اور ظاہر کی اصلاح کے ساتھ باطن کی اصلاح کی طرف توجہ دلاتے ہیں ، اور یہ شعر زبان پر رہتا ہے:*
*قال رابگزار حال شو*
*پیش مرد کامل پامال شو*
*اور توجہ دلاتے ہیں کہ تقوی صالحین کی صحبت میں پیدا ہوتا ہے ، اس لیے اس نیت سے صلحاء کی صحبت میں بیٹھنا چاہیے ، مشائخ کی خدمت میں دوست بن کر اور سننے کے بجائے سنانے کے لیے حاضر ہونے کو بہت برا سمجھتے ہیں ، اور نیازمندانہ حاضری کی طرف متوجہ کرتے ہیں ، نسبتوں کے اظہار کو بھی اچھا نہیں سمجھتے اور کوئی ایسا اظہار کرے تو ان کو سخت تکدر ہوتا ہے، ایک صاحب جو کسی بزرگ کے خلیفہ تھے آکر خود ہی کہہ بیٹھے کہ میں فلاں بزرگ کا خلیفہ ہوں تو سخت تکدر ہوا اور توجہ نہ فرمائی، بلکہ فرمایا: جی چاہتا ہے کہ ان کی اچھی خبر لوں*
*حضرت ڈاکٹر صاحب مدظلہ اپنی اس عمر میں بھی تہجد ، ذکر وغیرہ معمولات کے پورے پابند ہیں اور سب سے زیادہ فکر حسن خاتمہ کی ہے، اس کی بزرگوں سے دعا بھی کراتے ہیں، توکل کے اونچے مقام پرہیں ، اور یہ صفت استغناء کے ساتھ ہے، حالات کے اندر صبروعزیمت اور رضا بالقضا کی صفت سے متصف ہیں ، زبان پر شکایت نہیں ، دل میں کینہ نہیں اور جھوٹ وغیبت کا گزرنہیں ، کوئی اگر ایسا کرتا ہے تو سختی سے روک دیتے ہیں ، امت مسلمہ کے مسائل سے چشم پوشی نہیں کرتے بلکہ دلچسپی رکھتے ہیں ، اور مالداروں کو توجہ دلاتے ہیں کہ وہ اپنے کاروبار کو مستحکم کریں اور صنعتوں کی طرف توجہ کریں تاکہ مسلمان غیروں کےمحتاج نہ ہوں، ملی وانسانی خدمت کے جذبہ نے بھٹکل میونسپلٹی میں حصہ لینے پر آمادہ کیا اور دوتین میعاد اس کے رکن رہے ،حالات سے باخبر رہتے ہیں اور دوسروں کو بھی متوجہ کرتے ہیں کہ فاعتبروا ياأولي الأبصار ، کہ حالات سے سبق لینا چاہیے ، اللہ نے أولي الأبصار اور ایک جگہ أولي الألباب کہا ہے، اس لیے انسان کو عقل وبصیرت سے کام لینا چاہیے اور غور کرنا چاہیے*
*اختلاف اور نزاعی معاملات سے دور رہنے اور اتحاد واتفاق کے کام میں سبقت لے جانے کا مزاج ہے ، دین کی نسبت سے کاموں میں خواہ وہ تبلیغ کے ہوں یا تعلیم کے انہوں نے اس کو استحکام بخشنے اور فروغ دینے میں پورے ایمانی جذبہ سے ہمیشہ کام لیا ، تبلیغی جماعت کا کام جب اس علاقہ میں آیا تو اس کی نصرت کی ، علما کی تقریریں کرائیں ، اور دوسرے ذرائع سے دین کے کاموں کو تقویت پہنچائی*
*ڈاکٹر صاحب مدظلہ کی قدر ومنزلت علماء و مشائخ کے دل میں اس طرح رہی کہ حضرت مولانا علی میاں ندوی ؒ ان کے گھر کئی بار تشریف لے گئے ، اور ان کی نسبتوں کا ہمیشہ بڑا خیال رکھا ، اور ان کے خطوط کا ہمیشہ بڑے اہتمام سے جواب دیا ، خود ڈاکٹر صاحب مدظلہ نے ان کی زیارت وملاقات کے لیے لکھنو کے سفر کیے ، اور ان کی خانقاہ تکیہ رائے بریلی میں اپنے صاحبزادگان واحفاد کو بھیجا ، اور ان کی سرپرستی میں ندوۃالعلماء میں تعلیم دلائی ۔حضرت مولانا قاری امیر حسن صاحب مرحوم جب بھٹکل تشریف لاتے تو ڈاکٹر صاحب مدظلہ کے مکان پر قیام فرماتے اور ان سے بڑا انس محسوس فرما تے*
*مشائخ عصر میں حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا کاندھلوی ؒ ، حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمی ؒ ، حضرت مولانا محمد احمد پرتاب گڑھیؒ کی خدمت میں بھی حاضری دینے کا معمول رکھا اور ان سے مراسلت بھی رکھی، علمائے کبار میں مولانا عبدالباری ندویؒ ، مولاناعبدالماجد دریادی ؒ اور مولاناسید مناظراحسن گیلانیؒ اوردوسرے بہت سے علماء سے خاصا استفادہ کیا اور بڑی توجہات حاصل کیں*
*آخر میں اپنے شیخ حضرت محی السنہ مولانا شاہ ابرارالحق حقی ؒ کی نسبت اور ان کا رنگ غالب آیا ، اور سنت کی احیا ء کا جذبہ اور اہل اللہ کی صحبت سے مستفید ہونے کی طرف اہل تعلق کو متوجہ کیا ، تاکہ لوگوں کے قلوب مادیت کے زنگ سے صاف ہوکر اللہ سے جڑ جائیں ، اور دنیا کی محبت دل سے نکل کر اللہ کی محبت دل میں سما جائے ، اور حضور ﷺ کی سنتوں کی ظاہراً وباطناً پیروی کرکے اللہ کی محبوبیت وولایت کی حلاوت حاصل کی جائے ، کہ اس کے بغیر نہ اندر کا سکون ہے اور نہ باہر کا چین ہے ، اور اللہ کے ذکر سے دل کو معمور کرکے اعمال میں اور زندگی میں نورانیت پیدا کی جائے ، ڈاکٹر صاحب ایک مربی ،مصلح ،مرشد روحانی ہیں جن کی دکان معرفت سے دوائے دل ملتی ہے ، اور ان کی مجلس ایسی ہوتی ہے ،جس میں اہل علم ودانش شرکت کرتے ہیں ،اور ان کے علوم ومعارف وروحانیت اور صحبت فیض اثر سے مستفید ہوتے ہیں ،اطال اللّٰہ بقاءہ ومتعنا اللہ بحیاتہ والمسلمین*
*حضرت ڈاکٹر صاحب مدظلہ کی اصلاحی فکر اور درد و سوز کو سمجھنے کے لیے ان کی صحبت اور مجلس کے علاوہ ان کی وہ مراسلت بھی بڑی مفید ہے جو انھوں نے اپنے شیخ اقدم حضرت علامہ سید سلیمان ندویؒ سے کی تھی، جو حضرت مولانا محمد اشرف سلیمانی پشاوری کی کتاب “سلوک سلیمانی یا شاہراہ معرفت” میں تقریباً سو صفحات پر مشتمل ہے اور مختلف مشائخ سے ان کی مراسلت کو ان کے مختصر تذکرہ کے ساتھ ان کے بڑے صاحبزادے اور صاحب علم و فضل شخصیت مولانا محمد شفیع ملپا قاسمی نے ایک مستقل کتاب میں پیش کیا ہے*
پی ڈی ایف میں پڑہنے اور محفوظ کرنے کے لئے کلک کریں
https://raziyatulabrarbhatkal.blogspot.in/2017/07/blog-post_66.html?m=1
مختصر تعارف کے لیے یہ مضمون بھت مفید ہے ایک نئے آدمی کے لیےگویا ایک تعارفنامہ ہے
جواب دیںحذف کریں