مغرب پرستی
از: حضرت مولانا عبدالماجد دریاآبادی نوراللہ مرقدہ
"عن انس ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال اول اشراط الساعة نار فحشر الناس من المشرق الى المغرب"
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے فرمایا کہ قیامت کی علامتوں میں سے پہلی چیز ایک آگ ہے جو لوگوں کو مشرق سے مغرب کی جانب ہنکا کرلے جائے گی.
روایت صحیح بخاری کی ہے، جس کی صحت میں کلام نہیں، رسول برحق کی نگاہ کشفی کا ایک مشاہدہ بیان ہورہا ہے کہ نظام کائنات کے زیر وزبر ہونےکا وقت قریب آلگے گا تو اس کی ایک ابتدائی علامت یہ ہوگی کہ ایک ایسی آگ لگے گی جو لوگوں کو مشرق سے ہنکا ہنکا کر مغرب کی جانب لے جائے گی.
آگ جس لفظ نار کا ترجمہ کیا گیا ہے تو وہ مجازا بہت سے معنی میں آتا ہے، نار الحرب(آتشی جنگ)، نار العداوۃ(آتشی عداوت)وغیرہ، بعض شارحین حدیث نے یہاں نار سے فتنہ مراد لیا ہے اور آگ کو فتنہ کی آگ قرار دیا ہے قيل اراد نار الفتنة كفسة الرك اس لحاظ سے مفہوم یہ ہوگا کہ قرب قیامت میں ایک ایسا فتنہ پیدا ہوگا جو لوگوں کو مشرق سے مغرب کی طرف ہانک کر لے جائے گا.
آپ کے کانوں نے سنا، آپ کی آنکھیں آج دیکھ رہی ہیں، مشرق آپ کی آنکھوں کے سامنے کس قدر تیزی اور کس قوت کے ساتھ مغرب کی جانب ہانکا جارہا ہے، بیرسٹری کےلئے، انڈین سول سروس کےلئے، انڈین میڈیکل سروس کےلئے، تعلیم کی اعلی سے اعلی ڈگریوں کےلئے، قانون، انجینئری، ڈاکٹری کے بڑے بڑے امتحانات کے لئے، اونچے سے اونچے عہدے اور منصوبوں کےلئے، علاج کےلئے، تبدیلی آب وہوا کے لئے، کاروباری ترقی کےلئے، سیروسیاحت کےلئے، فرنگی زبانیں سیکھنے کے لئے، فرنگی علوم میں کمال حاصل کرنے کےلئے اور اکیلے فرنگی ہی نہیں بلکہ اب تو مشرقی زبانوں اور اسلامی علوم میں سند تکمیل کےلئے اور خدا معلوم کس کس غرض اور مقصد کےلئے کن کن ناموں اور کن کن بہانوں سے مشرق کی سرزمین سے ہرسال بے شمار انسان برلن، پیرس، فرانکفرٹ، کیمرج اور آکسفورڈ، گلاسکو اور ایڈنبرا اور سب سے بڑھ کر لندن کھنچے چلے جاتے ہیں. یورپ آنے کے لئے قرض لیں گے، یورپ میں رہ کر قرضدار ہوگئے، یورپ سے واپس ہوکر قرضداری کو زندگی کا جز بنائے رہیں گے، یہ سب کچھ ہوگا لیکن شوق مغرب کی آگ کھینچ کھینچ کر گھسیٹ گھسیٹ کر لائے گی.
عزت کی طلب میں آئیں گے اور ذلیل ہوکر جائیں گے، خوش حالی کی تلاش میں نکلیں گے اور مفلوک الحال ہوکر واپس ہوں گے، آزادی حاصل کرنا چاہیں گے اور غلامی کے دلدل میں اور زیادہ دھنس کر رہیں گے، یہ سب سہی پردل کی آگ بغیر یورپ کا سفر کئے چین نہ ملنے دے گی، یہ سفر مغرب کا مادی پہلو ہوا، باقی روحانی، اخلاقی اور ذہنی سفر جو مشرق کا مغرب کی جانب ہرلمحہ اور ہر آن ہورہا ہے، اس کی تاہ کون پاسکتا ہے، عقیدہ صرف وہی درست جو عقل فرنگ کے معیار کے مطابق ہوں، رسم ورواج وہی قابل قبول جوتہذیب فرنگ کے مسلم ہوں، عقل صرف وہی سلیم جو دانا یان فرنگ کے دماغ میں سماسکے، حشر کا لفط جوحدیث بالا میں آیا ہے اور جس کا ہنکائے جانے سے کیا گیا ہے.
اس کے مفہوم میں یہ داخل ہے کہ انسان اپنے گھر کو چھوڑکر کہیں اور چلاجائے اور اس کا استعمال بجائے افراد کے جماعتوں، ٹولیوں اور گروہوں کے لئے ہوتا ہے. آنکھ کھول کر دیکھئے کہ ہماری کتنی ٹولیوں کی ٹولیاں، گروہ کے گروہ، جماعتوں کی جماعتیں گرتی پڑتی، دوڑتی بھاگتی، مشرق سے مغرب کی جانب چلی جارہی ہے اور چشم بصیرت سے کام لیجئے کہ رہنے، سہنے، کھانے، پینے، اوڑھنے، پہننے، ہنسنے، بولنے، چلنے، پھرنے، علم وعمل، قول وفعل، عقل واخلاق،ذہن ودماغ، روح وجسم، ہراعتبار اور ہرمعیار سے مشرق کس طرح مغرب منتقل ہواجارہا ہے.
قیامت کی ساعت اور نظم کائنات کے درہم برہم ہونے کی گھڑی یقینا پاس آلگی اور اس کی اہم اور ابتدائی علامتیں جن کا مشاہدہ رسول کی دور بین نگاہوں کو تیرہ چودہ سوسال پیشتر کردیا گیا تھا، اب صاف اور واضح طور پر ہم سب کے مشاہدے میں لائی جارہی ہیں.
http://raziyatulabrarbhatkal.blogspot.in/2018/02/blog-post_19.html?m=1
از: حضرت مولانا عبدالماجد دریاآبادی نوراللہ مرقدہ
"عن انس ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال اول اشراط الساعة نار فحشر الناس من المشرق الى المغرب"
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے فرمایا کہ قیامت کی علامتوں میں سے پہلی چیز ایک آگ ہے جو لوگوں کو مشرق سے مغرب کی جانب ہنکا کرلے جائے گی.
روایت صحیح بخاری کی ہے، جس کی صحت میں کلام نہیں، رسول برحق کی نگاہ کشفی کا ایک مشاہدہ بیان ہورہا ہے کہ نظام کائنات کے زیر وزبر ہونےکا وقت قریب آلگے گا تو اس کی ایک ابتدائی علامت یہ ہوگی کہ ایک ایسی آگ لگے گی جو لوگوں کو مشرق سے ہنکا ہنکا کر مغرب کی جانب لے جائے گی.
آگ جس لفظ نار کا ترجمہ کیا گیا ہے تو وہ مجازا بہت سے معنی میں آتا ہے، نار الحرب(آتشی جنگ)، نار العداوۃ(آتشی عداوت)وغیرہ، بعض شارحین حدیث نے یہاں نار سے فتنہ مراد لیا ہے اور آگ کو فتنہ کی آگ قرار دیا ہے قيل اراد نار الفتنة كفسة الرك اس لحاظ سے مفہوم یہ ہوگا کہ قرب قیامت میں ایک ایسا فتنہ پیدا ہوگا جو لوگوں کو مشرق سے مغرب کی طرف ہانک کر لے جائے گا.
آپ کے کانوں نے سنا، آپ کی آنکھیں آج دیکھ رہی ہیں، مشرق آپ کی آنکھوں کے سامنے کس قدر تیزی اور کس قوت کے ساتھ مغرب کی جانب ہانکا جارہا ہے، بیرسٹری کےلئے، انڈین سول سروس کےلئے، انڈین میڈیکل سروس کےلئے، تعلیم کی اعلی سے اعلی ڈگریوں کےلئے، قانون، انجینئری، ڈاکٹری کے بڑے بڑے امتحانات کے لئے، اونچے سے اونچے عہدے اور منصوبوں کےلئے، علاج کےلئے، تبدیلی آب وہوا کے لئے، کاروباری ترقی کےلئے، سیروسیاحت کےلئے، فرنگی زبانیں سیکھنے کے لئے، فرنگی علوم میں کمال حاصل کرنے کےلئے اور اکیلے فرنگی ہی نہیں بلکہ اب تو مشرقی زبانوں اور اسلامی علوم میں سند تکمیل کےلئے اور خدا معلوم کس کس غرض اور مقصد کےلئے کن کن ناموں اور کن کن بہانوں سے مشرق کی سرزمین سے ہرسال بے شمار انسان برلن، پیرس، فرانکفرٹ، کیمرج اور آکسفورڈ، گلاسکو اور ایڈنبرا اور سب سے بڑھ کر لندن کھنچے چلے جاتے ہیں. یورپ آنے کے لئے قرض لیں گے، یورپ میں رہ کر قرضدار ہوگئے، یورپ سے واپس ہوکر قرضداری کو زندگی کا جز بنائے رہیں گے، یہ سب کچھ ہوگا لیکن شوق مغرب کی آگ کھینچ کھینچ کر گھسیٹ گھسیٹ کر لائے گی.
عزت کی طلب میں آئیں گے اور ذلیل ہوکر جائیں گے، خوش حالی کی تلاش میں نکلیں گے اور مفلوک الحال ہوکر واپس ہوں گے، آزادی حاصل کرنا چاہیں گے اور غلامی کے دلدل میں اور زیادہ دھنس کر رہیں گے، یہ سب سہی پردل کی آگ بغیر یورپ کا سفر کئے چین نہ ملنے دے گی، یہ سفر مغرب کا مادی پہلو ہوا، باقی روحانی، اخلاقی اور ذہنی سفر جو مشرق کا مغرب کی جانب ہرلمحہ اور ہر آن ہورہا ہے، اس کی تاہ کون پاسکتا ہے، عقیدہ صرف وہی درست جو عقل فرنگ کے معیار کے مطابق ہوں، رسم ورواج وہی قابل قبول جوتہذیب فرنگ کے مسلم ہوں، عقل صرف وہی سلیم جو دانا یان فرنگ کے دماغ میں سماسکے، حشر کا لفط جوحدیث بالا میں آیا ہے اور جس کا ہنکائے جانے سے کیا گیا ہے.
اس کے مفہوم میں یہ داخل ہے کہ انسان اپنے گھر کو چھوڑکر کہیں اور چلاجائے اور اس کا استعمال بجائے افراد کے جماعتوں، ٹولیوں اور گروہوں کے لئے ہوتا ہے. آنکھ کھول کر دیکھئے کہ ہماری کتنی ٹولیوں کی ٹولیاں، گروہ کے گروہ، جماعتوں کی جماعتیں گرتی پڑتی، دوڑتی بھاگتی، مشرق سے مغرب کی جانب چلی جارہی ہے اور چشم بصیرت سے کام لیجئے کہ رہنے، سہنے، کھانے، پینے، اوڑھنے، پہننے، ہنسنے، بولنے، چلنے، پھرنے، علم وعمل، قول وفعل، عقل واخلاق،ذہن ودماغ، روح وجسم، ہراعتبار اور ہرمعیار سے مشرق کس طرح مغرب منتقل ہواجارہا ہے.
قیامت کی ساعت اور نظم کائنات کے درہم برہم ہونے کی گھڑی یقینا پاس آلگی اور اس کی اہم اور ابتدائی علامتیں جن کا مشاہدہ رسول کی دور بین نگاہوں کو تیرہ چودہ سوسال پیشتر کردیا گیا تھا، اب صاف اور واضح طور پر ہم سب کے مشاہدے میں لائی جارہی ہیں.
http://raziyatulabrarbhatkal.blogspot.in/2018/02/blog-post_19.html?m=1
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں