*بانی جامعہ حضرت ڈاکٹر علی ملپا صاحب نور اللہ مرقدہ کا 1968 عیسوی میں جامعہ کو عظیم دارالعلوم بنانے کے عزم کے ساتھ اپنے دوستوں کو لکھا گیا خط*
*بسم اللہ الرحمن الرحیم*
*مکرمی ومحبی..........*
*السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ*
*مسلمانوں پر ان کے عقیدے اور ایمان کی رو سے یہ اہم اور مقدس ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی نسلوں کو مسلمان باقی رکھیں، اس ذمہ داری کو پورا کرنا مسلمانوں کے لئے اپنی عزت وناموس کی حفاظت سے بھی بڑھ کر ہے، مسلمان سب کچھ کھو کر ایمان ویقین کا حامل رہے تو کامیاب ہے لیکن اگر وہ ایمان ویقین کی نعمت سے محروم ہو کر اسے دنیا کا بڑے سے بڑا بھی منصب مل جائے تو وہ ناکامیاب ہے*
*مروجہ سرکاری نصاب تعلیم مختلف پہلوں سے ہمارے بچوں کے خام ذہنوں کو کس طرح متاثر کر رہا ہے اور ان کے ذہن ودماغ اور مذہبی رحجانات کا رخ کس طرح موڑا جا رہا ہے اس کا اندازہ ہر پڑھے لکھے شخص کو ہے*
*اگر ہم نے اس کا ابھی سے مقابلہ نہیں کیا اور اپنی انفرادیت باقی نہیں رکھی تو خدانخواستہ ہماری آنے والی نسل مذہب اسلام سے بیگانہ ہوجائے گی، لہذا اسی خطرے کے پیش نظر ہندوستان کے مختلف حصوں میں نکتہ فہم اور دینی تڑپ رکھنے والے مخلصوں نے اپنے نجی تعلیمی ادارے قائم کئے ہیں جن میں علوم دین کے علاوہ علوم عصریہ بھی پڑھائے جاتے ہیں*
*جامعہ اسلامیہ بھٹکل بھی اسی مقصد کے تحت 1962 عیسوی میں عالم وجود میں آیا اور بفضل تعالی اپنے مقصد میں روز افزوں کامیابی کے مراحل طے کر رہا ہے، ابھی اس کے عزائم بلند ہیں اب اسے ایک اقامتی درسگاہ میں تبدیل کرنا ہے جس کےلئے ایک موزوں عمارت کی ضرورت ہے جو ایک کامل دارالعلوم کہلاسکے*
*لہذا اگر آپ پہلے ہی سے اس کارخیر میں حصہ لئے ہوں تو اب آپ کی زمہ داری اور بڑھ جاتی ہے تاکہ تعمیری پروگرام میں مزید کشادہ دلی سے کام لیں، اگر ابھی تک آپ نے توجہ نہیں فرمائی تو آنجناب کی خدمت میں مؤدبانہ التماس ہے کہ اس آنے والے برکتوں والے اور مبارک مہینہ میں محض اللہ کے دین کی بقا واشاعت کےلئے اس دینی ادارے کے تعمیری پروگرام میں دل کھول کر اعانت فرماکر عند اللہ ماجور ہوں*
*ملتجی*
*دستخط حضرت ڈاکٹر علی ملپا صاحب*
*سکریٹری(ناظم) جامعہ اسلامیہ بھٹکل*
*بسم اللہ الرحمن الرحیم*
*مکرمی ومحبی..........*
*السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ*
*مسلمانوں پر ان کے عقیدے اور ایمان کی رو سے یہ اہم اور مقدس ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی نسلوں کو مسلمان باقی رکھیں، اس ذمہ داری کو پورا کرنا مسلمانوں کے لئے اپنی عزت وناموس کی حفاظت سے بھی بڑھ کر ہے، مسلمان سب کچھ کھو کر ایمان ویقین کا حامل رہے تو کامیاب ہے لیکن اگر وہ ایمان ویقین کی نعمت سے محروم ہو کر اسے دنیا کا بڑے سے بڑا بھی منصب مل جائے تو وہ ناکامیاب ہے*
*مروجہ سرکاری نصاب تعلیم مختلف پہلوں سے ہمارے بچوں کے خام ذہنوں کو کس طرح متاثر کر رہا ہے اور ان کے ذہن ودماغ اور مذہبی رحجانات کا رخ کس طرح موڑا جا رہا ہے اس کا اندازہ ہر پڑھے لکھے شخص کو ہے*
*اگر ہم نے اس کا ابھی سے مقابلہ نہیں کیا اور اپنی انفرادیت باقی نہیں رکھی تو خدانخواستہ ہماری آنے والی نسل مذہب اسلام سے بیگانہ ہوجائے گی، لہذا اسی خطرے کے پیش نظر ہندوستان کے مختلف حصوں میں نکتہ فہم اور دینی تڑپ رکھنے والے مخلصوں نے اپنے نجی تعلیمی ادارے قائم کئے ہیں جن میں علوم دین کے علاوہ علوم عصریہ بھی پڑھائے جاتے ہیں*
*جامعہ اسلامیہ بھٹکل بھی اسی مقصد کے تحت 1962 عیسوی میں عالم وجود میں آیا اور بفضل تعالی اپنے مقصد میں روز افزوں کامیابی کے مراحل طے کر رہا ہے، ابھی اس کے عزائم بلند ہیں اب اسے ایک اقامتی درسگاہ میں تبدیل کرنا ہے جس کےلئے ایک موزوں عمارت کی ضرورت ہے جو ایک کامل دارالعلوم کہلاسکے*
*لہذا اگر آپ پہلے ہی سے اس کارخیر میں حصہ لئے ہوں تو اب آپ کی زمہ داری اور بڑھ جاتی ہے تاکہ تعمیری پروگرام میں مزید کشادہ دلی سے کام لیں، اگر ابھی تک آپ نے توجہ نہیں فرمائی تو آنجناب کی خدمت میں مؤدبانہ التماس ہے کہ اس آنے والے برکتوں والے اور مبارک مہینہ میں محض اللہ کے دین کی بقا واشاعت کےلئے اس دینی ادارے کے تعمیری پروگرام میں دل کھول کر اعانت فرماکر عند اللہ ماجور ہوں*
*ملتجی*
*دستخط حضرت ڈاکٹر علی ملپا صاحب*
*سکریٹری(ناظم) جامعہ اسلامیہ بھٹکل*
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں