پیر، 24 جولائی، 2017

جمعہ کی نماز سے قبل چار رکعات سنت پڑہنا ثابت ہے

🍃بســم الله الرحـمـن الرحــيـم 🍃

نماز جمعہ سے قبل سنت نماز پڑہنا ثابت ہے

بعض حضرات جمعہ کی نماز سے پہلے سنت کو جائز نہیں سمجہتے مگر جمہور علماء اہل السنة والجماعة کے نزدیک جمعہ سے قبل اور جمعہ کے بعد سنت نماز ثابت ہے. صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا معمول ان سنتوں کے پڑہنے کا تہا. حدیث میں ایک صحابہ کو نماز نہ پڑہنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ٹوکنا ثابت ہے. اسلئے جمہور علماء کے نزدیک جمعہ سے پہلے اور بعد سنت نماز ثابت ہے.

غیر مقلدین کا اعتراض

غیر مقلدین کے سب سے بڑے محدث ناصر الدین البانی صاحب لکہتے ہیں

لا اصل لها فى السنة

الاجوبة النافعة

اعتراض كا جواب :

قولی حدیث صحیح بخاری میں ہے

عن  جابر بن عبد الله قال جاء رجل والنبى صلى الله عليه وسلم يخطب الناس يوم الجمعة فقال اصلت يا فلان قال لا قال قم فاركع ركعتين

دوسری حدیث سنن ابن ماجہ وغیرہ میں موجود ہے جس کے الفاظ یہ ہیں

اصلیت رکعتین قبل ان تجیء ؟ قال لا،  قال فصل ركعتين وتجوز فيهما

شارح بخاری علامہ سراج الدین ابن ملقن شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں

رواه ابن ماجة فى سننه باسناد صحيح...قال صاحب المنتقى رجال اسناده ثقات قال وقوله قبل ان يجى ء يدل على ان هاتين الركعتين الجمعة قبلها لا تحية المسجد.

تحفة المحتاج الى ادلة المنهاج

محدث دیوبند حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ فرماتے ہیں

فدل على انهما ركعتان قبل الجمعة لا تحية المسجد

العرف الشذى

فعلى حدیث سے دلیل کی تائید

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کی نماز سے قبل اور نماز کے بعد چار رکعات پڑہتے تہے

حدیث کے الفاظ یہ ہیں

کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یصلی قبل الجمعہ اربعا وبعدها اربعا

المعجم الاوسط للطبرانى

{غیر مقلدین کا اعتراض}

 یہ روایت ضعیف ہے. البانی صاحب ضعیف کہا ہے کیونکہ اس کے راوی محمد بن عبد الرحمن سہمی ضعیف ہیں.

{ اعتراض کا جواب}

اگر چہ بعضوں نے ضعیف کہا ہے مگر امام  ابن حبان نے اپنی ثقات میں ان کو شامل کیا ہے

امام ابن عدی فرماتے ہیں

(لا باس به)

ميزان الاعتدال للذهبى

جب جرح وتعدیل میں اختلاف ہو تو روایت کم از کم حسن ہوتی ہے. اس وجہ سے علامہ عراقی فرماتے ہیں

رواہ ابوالحسن الخلعى فى فوائدہ باسناد جيد

طرح التثريب

علامہ ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ نے بہی حسن کا حکم لگایا ہے. فرماتے ہیں

الحديث بسند الطبرانى حسن

اعلاء السنن

اور اس حدیث کی تائید میں کئی ایک حدیث موجود ہے.

شرح مشکل الآثار للطحاوی میں حدیث موجود ہے

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من كان مصليا فليصل قبل الجمعة اربعا وبعدها اربعا

اس کی تائید میں دوسری عملی حدیث بہی موجود ہے.

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں

ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يصلى قبل الجمعة ركعتين فى اهله وبعدها ركعتين.

جزء القاسم بن موسى الاشيب

غیر مقلد عالم شمس الحق عظیم نے حق کو تسلیم کیا ہے. لکہتے ہیں

والحاصل ان الصلاة قبل الجمعة مرغب فيها عموما وخصوصا

عون المعبود

البانی صاحب کا قول کوئی امام قبل جمعہ سنت کا قائل نہیں. اس سے مراد ان کا امام قائل نہیں یعنی ابن تیمیہ رحمہ اللہ قائل نہیں.

حضرت مولانا تقی عثمانی صاحب لکہتے ہیں

بہرحال جمعہ کی سنن قبلیہ کی سنیت کے تمام ائمہ قائل ہیں البتہ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے جمعہ کی سنن قبلیہ کا بالکل انکار کیا ہے.....لیکن علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا یہ دعوی درست نہیں......
بہرحال ان روایات وآثار کے مجموعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جمعہ کی رواتب قبلیہ بے اصل نہیں ان کے دلائل موجود ہیں. علاوہ ازیں ظہر پر قیاس کا تقاضہ بہی یہی ہے کہ جمعہ سے پہلے چار رکعتیں مسنون ہوں. اللہ اعلم

درس ترمذی، از مولانا تقی عثمانی

http://raziyatulabrarbhatkal.blogspot.com/2017/07/blog-post_24.html?m=1

➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖

🌴🌴 *اہل السنة والجماعة چینل اداره رضية الابرار بہٹکل، کرناٹک، ہند* 🌴🌴

اہل السنة والجماعة کے صحیح عقائد ومسلک جاننے اور اہل السنة والجماعة کی کتابیں پی ڈی ایف حاصل کرنے کے لئے کلک کریں

http://raziyatulabrarbhatkal.blogspot.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں