🍃بســم الله الرحـمـن الرحــيـم 🍃
تین مساجد کے علاوہ کسی مسجد کی زیارت کی نیت سے سفر نہ کریں
حديث لا تشد الرحال الا الى ثلاثة مساجد مسجد الحرام ومسجدى هذا ومسجد الاقصى
حضرت مولانا محمد تقی عثمانی مدظلہ لکہتے ہیں
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ان تین مساجد کے سوا دنیا کی تمام مساجد فضیلت کے اعتبار سے برابر ہیں لہذا حصول ثواب اور فضیلت کے لئے ان مساجد کے سوا کسی اور مسجد میں نماز پڑہنے کی غرض سے رخت سفر باندہنا بے فائدہ ہے.
زیارت قبور کے لئے سفر کی شرعی حثیت:
پہر حدیث مذکور کی بناء پر بعض حضرات نے زیارت قبور کے لئے سفر کرنے کو ناجائز قرار دیا ہے. اس مسلک کو سب سے پہلے قاضی عیاض مالکی رحمہ اللہ نے اختیار کیا، پہر ان کے بعد علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس میں انتہائی تشدد اور غلو اختیار کیا اور اس کی خاطر بہت سی مصیبتیں بہی اٹہائیں. یہاں تک کہ انہوں نے روضہ اطہر تک کی زیارت کے لئے بہی سفر کو ناجائز قرار دیا اور فرمایا کہ اگر مسجد نبوی میں نماز پڑہنے کی نیت سے سفر کیا جائے اور پہر ضمنا روضہ اطہر کی بہی زیارت کر لی جائے تو اس کی اجازت ہے لیکن خاص روضہ اطہر کی زیارت کی نیت سے سفر کرنا جائز نہیں.
لیکن جمہور نے علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے اس مسلک کو قبول نہیں کیا اور اس کی تردید کی بلکہ علامہ تقی الدین سبکی رحمہ اللہ نے تو شفاء السقام کے نام سے ان کی تردید میں ایک مفصل کتاب بہی لکہی ہے.
علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا استدلال حدیث باب سے ہے وہ فرماتے ہیں کہ حدیث باب میں استثناء مفرغ ہے لہذا یہاں مستثنی منہ محذوف ہے اور تقدیر عبارت یوں ہے لا تشد الرحال الى شىء الا الى ثلاثة مساجد لہذا حصول برکت اور حصول ثواب کے لئے سفر کرنا ان تین مساجد کے ساتہ مخصوص ہے اور کسی قبر کے لئے سفر کرنا اس حدیث کی وجہ سے ممنوع ہوگا.
اس کا جواب میں جمہور یہ کہتے ہیں کہ استثناء تو بے شک مفرغ ہے لیکن تقدیر عبارت یوں نہیں ہے کہ لا تشد الرحال الى شىء الا الى ثلاثة مساجد کیونکہ اس ےتقدیر پر تو سفر جہاد، سفر طلب علم، سفر تجارت اور کسی عالم کی زیارت کے لئے بہی سفر کرنا ممنوع قرار پائے گا جبکہ اس کا کوئی قائل نہیں، لہذا تقدیر عبارت در اصل یوں ہے لا تشد الرحال الى مسجد الا الى ثلاثة مساجد اور مقصد یہ ہے کہ ان تین مساجد کے سوا کسی اور مسجد کی طرف اس نیت سے سفر کرنا درست نہیں کہ اس میں زیادہ فضیلت یا ثواب حاصل ہوگا اور یہ تقدیر اس لحاظ سے بہی انسب ہی کہ استثناء مفرغ میں جب مستثنی منہ محذوف نکالا جاتا ہے اس کو مستثنی کے ساتہ کچہ مناسبت ضرور ہونی چاہئے اور ہم نے جو مستثنی منہ محذوف نکالا ہے وہ مستثنی کے عین مناسب ہے پہر اس کی تائید مسند احمد کی روایت سے بہی ہوتی ہے جس میں یہ الفاظ ہیں لا ينبغى للمعطى ان يشد رحاله الى مسجد ينبغى فيه الصلاة غير المسجد الحرام والمسجد الاقصى ومسجدى هذا چنانچہ علامہ عینی رحمہ اللہ نے عمدة القارى میں اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں جمہور کے مسلک پر اسی روایت سے استدلال کیا ہے.
درس ترمذی از مولانا تقی عثمانی
https://raziyatulabrarbhatkal.blogspot.in/2017/07/blog-post_26.html?m=1
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
🌴🌴 *اہل السنة والجماعة چینل اداره رضية الابرار بہٹکل، کرناٹک، ہند* 🌴🌴
اہل السنة والجماعة کے صحیح عقائد ومسلک جاننے اور اہل السنة والجماعة کی کتابیں پی ڈی ایف حاصل کرنے کے لئے کلک کریں
http://raziyatulabrarbhatkal.blogspot.com
تین مساجد کے علاوہ کسی مسجد کی زیارت کی نیت سے سفر نہ کریں
حديث لا تشد الرحال الا الى ثلاثة مساجد مسجد الحرام ومسجدى هذا ومسجد الاقصى
حضرت مولانا محمد تقی عثمانی مدظلہ لکہتے ہیں
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ان تین مساجد کے سوا دنیا کی تمام مساجد فضیلت کے اعتبار سے برابر ہیں لہذا حصول ثواب اور فضیلت کے لئے ان مساجد کے سوا کسی اور مسجد میں نماز پڑہنے کی غرض سے رخت سفر باندہنا بے فائدہ ہے.
زیارت قبور کے لئے سفر کی شرعی حثیت:
پہر حدیث مذکور کی بناء پر بعض حضرات نے زیارت قبور کے لئے سفر کرنے کو ناجائز قرار دیا ہے. اس مسلک کو سب سے پہلے قاضی عیاض مالکی رحمہ اللہ نے اختیار کیا، پہر ان کے بعد علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس میں انتہائی تشدد اور غلو اختیار کیا اور اس کی خاطر بہت سی مصیبتیں بہی اٹہائیں. یہاں تک کہ انہوں نے روضہ اطہر تک کی زیارت کے لئے بہی سفر کو ناجائز قرار دیا اور فرمایا کہ اگر مسجد نبوی میں نماز پڑہنے کی نیت سے سفر کیا جائے اور پہر ضمنا روضہ اطہر کی بہی زیارت کر لی جائے تو اس کی اجازت ہے لیکن خاص روضہ اطہر کی زیارت کی نیت سے سفر کرنا جائز نہیں.
لیکن جمہور نے علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے اس مسلک کو قبول نہیں کیا اور اس کی تردید کی بلکہ علامہ تقی الدین سبکی رحمہ اللہ نے تو شفاء السقام کے نام سے ان کی تردید میں ایک مفصل کتاب بہی لکہی ہے.
علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا استدلال حدیث باب سے ہے وہ فرماتے ہیں کہ حدیث باب میں استثناء مفرغ ہے لہذا یہاں مستثنی منہ محذوف ہے اور تقدیر عبارت یوں ہے لا تشد الرحال الى شىء الا الى ثلاثة مساجد لہذا حصول برکت اور حصول ثواب کے لئے سفر کرنا ان تین مساجد کے ساتہ مخصوص ہے اور کسی قبر کے لئے سفر کرنا اس حدیث کی وجہ سے ممنوع ہوگا.
اس کا جواب میں جمہور یہ کہتے ہیں کہ استثناء تو بے شک مفرغ ہے لیکن تقدیر عبارت یوں نہیں ہے کہ لا تشد الرحال الى شىء الا الى ثلاثة مساجد کیونکہ اس ےتقدیر پر تو سفر جہاد، سفر طلب علم، سفر تجارت اور کسی عالم کی زیارت کے لئے بہی سفر کرنا ممنوع قرار پائے گا جبکہ اس کا کوئی قائل نہیں، لہذا تقدیر عبارت در اصل یوں ہے لا تشد الرحال الى مسجد الا الى ثلاثة مساجد اور مقصد یہ ہے کہ ان تین مساجد کے سوا کسی اور مسجد کی طرف اس نیت سے سفر کرنا درست نہیں کہ اس میں زیادہ فضیلت یا ثواب حاصل ہوگا اور یہ تقدیر اس لحاظ سے بہی انسب ہی کہ استثناء مفرغ میں جب مستثنی منہ محذوف نکالا جاتا ہے اس کو مستثنی کے ساتہ کچہ مناسبت ضرور ہونی چاہئے اور ہم نے جو مستثنی منہ محذوف نکالا ہے وہ مستثنی کے عین مناسب ہے پہر اس کی تائید مسند احمد کی روایت سے بہی ہوتی ہے جس میں یہ الفاظ ہیں لا ينبغى للمعطى ان يشد رحاله الى مسجد ينبغى فيه الصلاة غير المسجد الحرام والمسجد الاقصى ومسجدى هذا چنانچہ علامہ عینی رحمہ اللہ نے عمدة القارى میں اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں جمہور کے مسلک پر اسی روایت سے استدلال کیا ہے.
درس ترمذی از مولانا تقی عثمانی
https://raziyatulabrarbhatkal.blogspot.in/2017/07/blog-post_26.html?m=1
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
🌴🌴 *اہل السنة والجماعة چینل اداره رضية الابرار بہٹکل، کرناٹک، ہند* 🌴🌴
اہل السنة والجماعة کے صحیح عقائد ومسلک جاننے اور اہل السنة والجماعة کی کتابیں پی ڈی ایف حاصل کرنے کے لئے کلک کریں
http://raziyatulabrarbhatkal.blogspot.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں