*راجح قول کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش بارہ ربیع الاول کو ہوئی*
*صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور جمہور سیرت نگاروں ومورخین کی کتابوں کے مطالعہ کے بعد اس بات پر کوئی شک باقی نہیں رہ جاتا ہے کہ جمہور اہل السنہ والجماعت کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش بارہ ربیع الاول کو ہوئی، شیعہ اور غیر مقلدین علماء کو اس تاریخ سے اختلاف ہے، شیعہ حضرات سترہ ربیع الاول کو یوم ولادت مانتے ہیں، اور غیر مقلدین 9 ربیع الاول کو یوم ولادت کہتے ہیں، مگر اس قول کو سلف میں سے کسی نہ بہی اختیار نہیں کیا ہے، سب سے پہلے محمود پاشاہ مصری فلکی نے بطور حساب اس قول کو اختیار کیا، پہر اس قول کو قاضی سلیمان منصورپوری اور علامہ شبلی نعمانی نے اختیار کیا، قدیم سیرت کی کتابوں میں 9 ربیع الاول کا قول کسی نے اختیار نہیں کیا ہے،سیرت کی سب سے قدیم کتاب السیرۃ النبویۃ لابن ہشام میں 12 ربیع الاول کا قول نقل کیا ہے، اور یہی قول جمہور اہل السنۃ والجماعۃ سلف وخلف کا ہے*
*حضرت جابر اور حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش بارہ ربیع الاول کو ہوئی*
*اسی قول کو امام ابن حبان نے السیرۃ میں، امام ابوالحسن ماوردی نے اعلام النبوۃ میں، علامہ سلیمان حمیری نے الاکتفاء میں، علامہ ابن سید الناس نے عیون الاثر فی فنون المغازی والشمائل والسیر میں، علامہ ابن خلدون نے تاریخ ابن خلدون میں، علامہ تقی الدین احمد مقریزی نے امتاع الاسماع میں، علامہ سخاوی نے التحفۃ اللطیفۃ میں، علامہ ابن حجر ہیتمی مکی نے النعمۃ الکبری میں، علامہ مناوی نے فیض القدیر میں، علامہ زرقانی نے شرح الزرقانی میں اسی قول کو اختیار کیا ہے*
*قاضی محمد صبغۃ اللہ قاضی بدرالدولۃ(متوفی 1280 ہجری) لکہتے ہیں: حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کون سے سال ہوئی، سو اس میں اختلاف ہے، مگر مشہور یہ ہے کہ ابراہہ کی فوج غارت ہوئی، سو پچاس روز کے بعد ربیع الاول کی بارہویں دوشنبہ کے روز پیش از طلوع آفتاب پیدا ہوئے... وہ اپریل کا مہینہ تہا 571 عیسوی میں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئی. (فواید بدریہ، ص21)*
*سر سید احمد خاں(متوفی 1315 ہجری بانی مسلم یونیورسٹی علی گڑھ) لکہتے ہیں: جمہور مورخین کی رائے ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بارھویں ربیع الاول کو عام الفیل کے پہلے برس یعنی ابرہہ کی چڑھائی سے پچپن روز بعد پیدا ہوئے. (العرب والسیرۃ المحمدیہ، ص498)*
*حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تہانوی(متوفی 1362 ہجری،سابق سرپرست دارالعلوم دیوبند)لکہتے ہیں: جمہور کے قول کے موافق بارہ ربیع الاول تاریخ ولادت شریفہ ہے. (ارشاد العباد فی عید المیلاد*
*ایک مضمون میں علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف 9 ربیع الاول کا قول منسوب کیا ہے، سیرۃ النبی میں یہ قول شبلی نعمانی صاحب کا ہے نہ کہ علامہ سید سلیمان ندوی کا، اسلئے کہ آپ کی کتاب رحمت عالم میں آپ لکہتے ہیں: پیدائش 12 تاریخ ربیع الاول کے مہینہ میں پیر کے دن حضرت عیسی علیہ السلام سے پانچ سو اکہتر 571 برس بعد ہوئی. سب گھر والوں کو اس بچے کے پیدا ہونے سے بڑی خوشی ہوئی*
*مفتی اعظم دارالعلوم دیوبند حضرت مفتی محمد شفیع دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ لکہتے ہیں*
*الغرض جس سال اصحاب فیل کا حملہ ہوا اس کے ماہ ربیع الاول کی بارہویں تاریخ روز دو شنبہ دنیا کی عمر میں ایک نرالہ دن ہے کہ آج پیدائش عالم کا مقصد لیل ونہار کے انقلاب کی اصل غرض، آدم علیہ السلام اور اولاد آدم کا فخر، کشتی نوح علیہ السلام کی حفاظت کا راز، ابراہیم علیہ السلام کی دعا اور موسی علیہ السلام کی پیشن گوئی کا مصداق یعنی ہمارے آقائے نامدار محمد صلی اللہ علیہ وسلم رونق افروز عالم ہوتے ہیں. (سیرت خاتم الانبیاء، ص11)*
*سابق صدر مفتی دارالعلوم دیوبند حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ لکہتے ہیں: حضرت عبد اللہ کی شادی حضرۃ آمنہ بنت وہب سے ہوئی، جو بنی زہرہ کے خاندان سے تہیں، اس مبارک ومسعود شادی کے بعد شہر مکہ میں حضرۃ آمنہ کے بطن سے دوشنبہ 12 ربیع الاول مطابق 20 اپریل 571 عیسوی کو صبح کے وقت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت ظہور پذیر ہوئی. (گلدستہ سلام، ص18)*
*مفکراسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی(سابق ناظم ندوۃ العلماء لکھنو) لکہتے ہیں: وولد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوم الاثنین الیوم الثانی عشر من شھر ربیع الاول عام الفیل. (السیرۃ النبویۃ)*
*9 تاریخ کا قول بے سند قول ہے، حضرت مفتی محمد شفیع دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ سابق صدر مفتی دارالعلوم دیوبند لکہتے ہیں: مشہور قول بارہویں تاریخ کا ہے، یہاں تک کہ ابن الجزار نے اجماع نقل کردیا ہے اور اسی کو کامل ابن اثیر میں اختیار کیا گیا ہے، اور محمود پاشاعلی مصری نے جو نویں تاریخ کو بذریعہ حساب اختیار کیا ہے، یہ جمہور کے خلاف بے سند قول ہے اور حسابات پر توجہ اختلاف مطابع ایسا اعتماد نہیں ہو سکتا کہ جمہور کی مخالفت اس بناء پر کی جائے. (حاشیہ سیرت خاتم الانبیاء، ص11)*
*حضرت مولانا محمد شفیع قاسمی بہٹکلی دامت برکاتہم لکہتے ہیں: محمود پاشاہ صاحب نے حساب سے 9 ربیع الاول عام فیل کو پیر کا دن قرار دیا ہے، یہ صحیح نہیں معلوم ہوتا ہے، ہمارے حساب سے 12 ربیع الاول عام فیل مطابق 23 اپریل 571 عیسوی کو پیر کا دن پڑتا ہے. مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے لکہا ہے کہ بعض اہل تحقیق نے اسے 23 اپریل 571 عیسوی کے مطابق قرار دیا ہے. (سیرت سرور عالم، جلد دوم، صفحہ 94، ماہ نامہ دارالعلوم دیوبند جنوری 2015 عیسوی)*
*بارہ ربیع الاول کے علاوہ جتنے اقوال ہیں وہ سب مرجوح اور اس کی سند بہی ضعیف ہیں، البتہ امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ سے ایک قول دس ربیع الاول کا موجود ہے. ہوسکتا ہے کہ مکہ کے علاوہ دوسرے مقام پر دس ربیع الاول کی تاریخ تہی،جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں پیدا ہوئے اس وقت مکہ میں 12 ربیع الاول کی تاریخ تہی اور دوسرے ممالک میں 11 اور 10 کی تاریخ ہو، کیونکہ مشرقی ممالک میں دن ورات کا اختلاف ہوتا رہتا ہے، واللہ اعلم بالصواب*
*صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور جمہور سیرت نگاروں ومورخین کی کتابوں کے مطالعہ کے بعد اس بات پر کوئی شک باقی نہیں رہ جاتا ہے کہ جمہور اہل السنہ والجماعت کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش بارہ ربیع الاول کو ہوئی، شیعہ اور غیر مقلدین علماء کو اس تاریخ سے اختلاف ہے، شیعہ حضرات سترہ ربیع الاول کو یوم ولادت مانتے ہیں، اور غیر مقلدین 9 ربیع الاول کو یوم ولادت کہتے ہیں، مگر اس قول کو سلف میں سے کسی نہ بہی اختیار نہیں کیا ہے، سب سے پہلے محمود پاشاہ مصری فلکی نے بطور حساب اس قول کو اختیار کیا، پہر اس قول کو قاضی سلیمان منصورپوری اور علامہ شبلی نعمانی نے اختیار کیا، قدیم سیرت کی کتابوں میں 9 ربیع الاول کا قول کسی نے اختیار نہیں کیا ہے،سیرت کی سب سے قدیم کتاب السیرۃ النبویۃ لابن ہشام میں 12 ربیع الاول کا قول نقل کیا ہے، اور یہی قول جمہور اہل السنۃ والجماعۃ سلف وخلف کا ہے*
*حضرت جابر اور حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش بارہ ربیع الاول کو ہوئی*
*اسی قول کو امام ابن حبان نے السیرۃ میں، امام ابوالحسن ماوردی نے اعلام النبوۃ میں، علامہ سلیمان حمیری نے الاکتفاء میں، علامہ ابن سید الناس نے عیون الاثر فی فنون المغازی والشمائل والسیر میں، علامہ ابن خلدون نے تاریخ ابن خلدون میں، علامہ تقی الدین احمد مقریزی نے امتاع الاسماع میں، علامہ سخاوی نے التحفۃ اللطیفۃ میں، علامہ ابن حجر ہیتمی مکی نے النعمۃ الکبری میں، علامہ مناوی نے فیض القدیر میں، علامہ زرقانی نے شرح الزرقانی میں اسی قول کو اختیار کیا ہے*
*قاضی محمد صبغۃ اللہ قاضی بدرالدولۃ(متوفی 1280 ہجری) لکہتے ہیں: حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کون سے سال ہوئی، سو اس میں اختلاف ہے، مگر مشہور یہ ہے کہ ابراہہ کی فوج غارت ہوئی، سو پچاس روز کے بعد ربیع الاول کی بارہویں دوشنبہ کے روز پیش از طلوع آفتاب پیدا ہوئے... وہ اپریل کا مہینہ تہا 571 عیسوی میں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئی. (فواید بدریہ، ص21)*
*سر سید احمد خاں(متوفی 1315 ہجری بانی مسلم یونیورسٹی علی گڑھ) لکہتے ہیں: جمہور مورخین کی رائے ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بارھویں ربیع الاول کو عام الفیل کے پہلے برس یعنی ابرہہ کی چڑھائی سے پچپن روز بعد پیدا ہوئے. (العرب والسیرۃ المحمدیہ، ص498)*
*حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تہانوی(متوفی 1362 ہجری،سابق سرپرست دارالعلوم دیوبند)لکہتے ہیں: جمہور کے قول کے موافق بارہ ربیع الاول تاریخ ولادت شریفہ ہے. (ارشاد العباد فی عید المیلاد*
*ایک مضمون میں علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف 9 ربیع الاول کا قول منسوب کیا ہے، سیرۃ النبی میں یہ قول شبلی نعمانی صاحب کا ہے نہ کہ علامہ سید سلیمان ندوی کا، اسلئے کہ آپ کی کتاب رحمت عالم میں آپ لکہتے ہیں: پیدائش 12 تاریخ ربیع الاول کے مہینہ میں پیر کے دن حضرت عیسی علیہ السلام سے پانچ سو اکہتر 571 برس بعد ہوئی. سب گھر والوں کو اس بچے کے پیدا ہونے سے بڑی خوشی ہوئی*
*مفتی اعظم دارالعلوم دیوبند حضرت مفتی محمد شفیع دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ لکہتے ہیں*
*الغرض جس سال اصحاب فیل کا حملہ ہوا اس کے ماہ ربیع الاول کی بارہویں تاریخ روز دو شنبہ دنیا کی عمر میں ایک نرالہ دن ہے کہ آج پیدائش عالم کا مقصد لیل ونہار کے انقلاب کی اصل غرض، آدم علیہ السلام اور اولاد آدم کا فخر، کشتی نوح علیہ السلام کی حفاظت کا راز، ابراہیم علیہ السلام کی دعا اور موسی علیہ السلام کی پیشن گوئی کا مصداق یعنی ہمارے آقائے نامدار محمد صلی اللہ علیہ وسلم رونق افروز عالم ہوتے ہیں. (سیرت خاتم الانبیاء، ص11)*
*سابق صدر مفتی دارالعلوم دیوبند حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ لکہتے ہیں: حضرت عبد اللہ کی شادی حضرۃ آمنہ بنت وہب سے ہوئی، جو بنی زہرہ کے خاندان سے تہیں، اس مبارک ومسعود شادی کے بعد شہر مکہ میں حضرۃ آمنہ کے بطن سے دوشنبہ 12 ربیع الاول مطابق 20 اپریل 571 عیسوی کو صبح کے وقت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت ظہور پذیر ہوئی. (گلدستہ سلام، ص18)*
*مفکراسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی(سابق ناظم ندوۃ العلماء لکھنو) لکہتے ہیں: وولد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوم الاثنین الیوم الثانی عشر من شھر ربیع الاول عام الفیل. (السیرۃ النبویۃ)*
*9 تاریخ کا قول بے سند قول ہے، حضرت مفتی محمد شفیع دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ سابق صدر مفتی دارالعلوم دیوبند لکہتے ہیں: مشہور قول بارہویں تاریخ کا ہے، یہاں تک کہ ابن الجزار نے اجماع نقل کردیا ہے اور اسی کو کامل ابن اثیر میں اختیار کیا گیا ہے، اور محمود پاشاعلی مصری نے جو نویں تاریخ کو بذریعہ حساب اختیار کیا ہے، یہ جمہور کے خلاف بے سند قول ہے اور حسابات پر توجہ اختلاف مطابع ایسا اعتماد نہیں ہو سکتا کہ جمہور کی مخالفت اس بناء پر کی جائے. (حاشیہ سیرت خاتم الانبیاء، ص11)*
*حضرت مولانا محمد شفیع قاسمی بہٹکلی دامت برکاتہم لکہتے ہیں: محمود پاشاہ صاحب نے حساب سے 9 ربیع الاول عام فیل کو پیر کا دن قرار دیا ہے، یہ صحیح نہیں معلوم ہوتا ہے، ہمارے حساب سے 12 ربیع الاول عام فیل مطابق 23 اپریل 571 عیسوی کو پیر کا دن پڑتا ہے. مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے لکہا ہے کہ بعض اہل تحقیق نے اسے 23 اپریل 571 عیسوی کے مطابق قرار دیا ہے. (سیرت سرور عالم، جلد دوم، صفحہ 94، ماہ نامہ دارالعلوم دیوبند جنوری 2015 عیسوی)*
*بارہ ربیع الاول کے علاوہ جتنے اقوال ہیں وہ سب مرجوح اور اس کی سند بہی ضعیف ہیں، البتہ امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ سے ایک قول دس ربیع الاول کا موجود ہے. ہوسکتا ہے کہ مکہ کے علاوہ دوسرے مقام پر دس ربیع الاول کی تاریخ تہی،جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں پیدا ہوئے اس وقت مکہ میں 12 ربیع الاول کی تاریخ تہی اور دوسرے ممالک میں 11 اور 10 کی تاریخ ہو، کیونکہ مشرقی ممالک میں دن ورات کا اختلاف ہوتا رہتا ہے، واللہ اعلم بالصواب*
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں