جمعہ، 16 فروری، 2018

کسی عالم یا کسی جماعت کا سکوت حجت نہیں ہے

*کسی عالم یا کسی جماعت کا سکوت حجت نہیں ہے*

*ایک ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور ایک ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال، اور ایک یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کوئی کام کیاگیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر کوئی نکیر نہیں فرمائی یعنی منع نہیں کیا، کوئی روک ٹوک نہیں کی تو اس کو کہتے ہیں تقریر یعنی کسی کام کودیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چپ رہنا یہ بھی اس کام کے جائز ہونے کی دلیل ہے، یہ شان صرف حضرات انبیاء علیہ الصلاۃ والتسلیم کی ہے کہ ان کا اس طرح کے موقع پر سکوت بھی حجت اور دلیل ہوتا ہے کہ وہ جائز ہے. ان حضرات کے علاوہ کسی کا سکوت دلیل جواز نہیں ہے، یہاں ایک بات اور ذکر کروں کہ اس سلسلہ میں عوام کا ذہن یہ ہے کہ کسی عالم کے سامنے کوئی کام کیا جائے اور وہ عالم صاحب اس پر نکیر نہ کریں تو عوام یہ سمجھتے ہیں کہ وہ کام صحیح ہے. کیونکہ ان کے ذہن میں ہے کہ اگر کام غلط ہوتا تو مولانا صاحب منع کرتے، تو ان کے منع نہ کرنے اور خاموش رہنے کو اس کام کے صحیح ہونے کی دلیل سمجھتے ہیں، چنانچہ اس پر اگر کوئی نکیر نہ کرے کہ یہ کام ٹھیک نہیں ہے تو فورا کہتے ہیں کہ وہاں فلاں اہل علم تھے ان کی موجودگی میں یہ کام کیا گیا اور انھوں نے کچھ کہا نہیں تو ان کے چپ رہنے سے وہ اس کو دلیل جواز سمجھتے ہیں حالانکہ یہ بالکل حقیقت کے خلاف ہے. یہ شان تو صرف انبیاء کرام کی ہے، اس کے علاوہ کسی عالم کا سکوت حجت نہیں ہے، اس طرح کسی مجلس، کسی اجتماع، جلسہ یا کسی ادارہ یا مدرسہ میں کوئی اس پر روک ٹوک نہ کریں بلکہ سب خاموش رہیں تو سب کا چپ رہنا اس کام کے جائز ہونے کی دلیل نہیں ہوگا، جیسے انفرادی طور پر ایک عالم کا سکوت حجت نہیں اس طرح اجتماعی طور پر کسی دینی مجمع کا سکوت بھی حجت نہیں ہوگا*

*(اقتباس تقریر بھٹکل ازمحی السنۃ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق ہردوئی نوراللہ مرقدہ )*

http://raziyatulabrarbhatkal.blogspot.in/2018/02/blog-post_16.html?m=1

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں