منگل، 3 اپریل، 2018

ہماری تباہی اور پریشانی کا آسان حل

آج کل کے حالات خاصہ کے لحاظ سے مندرجہ ذیل بارہ امور کا بہت زیادہ اہتمام رکھا جاوے
مرتب: محی السنہ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق ہردوئی رحمۃ اللہ علیہ
1) پنچ وقتہ نماز باجماعت کا اہتمام خصوصا فجر کی نماز باجماعت کا.
2) فرائض کے بعد یا اور کسی وقت دو رکعات نماز نفل پڑھ کر اپنی اصلاح اور امت کی اصلاح نیز مسلمانوں کو امن وچین کی زندگی حاصل ہونے کےلئے رو رو کے دعا کرنا اگر رونا نہ آئے تو رونے کی شکل بنالے.
3) سورہ اخلاص (قل ھو اللہ شریف)، سورہ فلق، سورہ ناس تین تین مرتبہ فجر و مغرب کے بعد پڑھنا.
4) ہر قسم کے گناہوں سے بچنے کا خاص اہتمام جن کو مجملاََدعوۃ الحق ہردوئی کی طرف سے بھی شائع کیا گیا ہے اور تفصیل سے حیاۃ المسلمین، جزاء الاعمال میں موجود ہیں، یہ کتابیں حضرت حکیم الامت مجدد الملت مولانا شاہ اشرف علی صاحب تھانوی نور اللہ مرقدہ کی ہیں.
5) حکایات صحابہ جو کہ قطب عالم حضرت مولانا زکریا صاحب علیہ الرحمۃ کی ہے اس کو پڑھیں نیز کتابچہ ہماری تباہی اور اس کا حل "بیان احقر" کو بھی پڑھیں اور ان کے سننے سنانے کا گھروں میں اہتمام کریں.
6) کسی خاص امر اور مشکل کام میں اپنے بزرگوں اور علماء کرام کی طرف رجوع ہونا اور ان سے مشورہ کرنا.
7) اگر کوئی ظلم کرے تو بہتر یہ ہے کہ معاف کر دے اور صبر کرے اگر بدلہ ہی لینا چاہتا ہے تو وہ بھی جائز ہے مگر ظلم کا بدلہ لینے میں ظلم کی نوبت نہ آنی چاہئے مثلاً کسی نے گالی دی اس کو مارنا ظلم ہے یا کسی نے کسی کے بھائی کو مارا پیٹا تو اس کے بھائی کو مارنا پیٹنا ظلم ہے نیز ظلم کا بدلہ لینے کی صورت کو اہل علم سے پوچھ کر اس پر عمل کرے.
8) اپنی حفاظت اور بقا کے جو ظاہری اسباب ہیں قانون شریعت اور قانون حکومت کا لحاظ رکھتے ہوئے اس کو اختیار کرے.
9) حقوق الاسلام کو ہر شخص اچھی طرح توجہ سے پڑھے یا سنے اور اس پر عمل کرے، پڑوسیوں کے حقوق کا خاص خیال رکھیں بالخصوص اگر کوئی پڑوسی غیر مسلم ہو، حدیث پاک میں ہے اعلی درجہ کا مسلمان وہ ہے جس سے کسی کو کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچے، روایت کیا اس کو امام مسلم نے.
10) ہر نماز کے وقت میں اپنے اعمال کا محاسبہ یعنی جانچ کرے کہ نیک کام کس قدر ہوئے اور ان پر شکر کرے نیز یہ بھی سوچے کہ برے کام کتنے ہوئے ان کے لئے استغفار کرے اور توبہ کرے، توبہ کا طریقہ جاننے والوں سے پوچھ لے.
11) بری باتوں سے روک ٹوک کے لئے بھی جماعتی محنت میں لگنا چاہئیے، تفصیل کتاب "ہماری تباہی اور اس کا حل" میں دیکھئے.
12) حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن کو لائق نہیں کہ اپنے نفس کو ذلیل کرے، عرض کیا گیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے کیا مراد ہے فرمایا نفس کو ذلیل کرنا یہ ہے کہ جس بلا کو سہار نہ سکے اس کا سامنا کرے. (تیسیر از ترمذی)
فائدہ: وجہ ظاہر ہے کہ ایسا کرنے سے پریشانی بڑھتی ہے اس میں تمام وہ کام آگئے جو اپنے قابو کے نہ ہوں بلکہ اگر کسی مخالف کی طرف سے بھی کوئی شورش ظاہر ہوتو حکام کے ذریعہ سے اس کی مدافعت کرو، خواہ وہ خود انتظام کردیں خواہ تم کو انتقام کی اجازت دیدیں، اور اگر خود حکام ہی کی طرف سے کوئی ناگوار واقعہ پیش آوے تو تہذیب سے اپنی تکلیف کی اطلاع کر دو اور پھر بھی حسب مرضی انتظام نہ ہو تو صبر کرو اور عمل سے یا زبان سے یا قلم سے مقابلہ مت کرو، اللہ تعالی سے دعا کرو کہ تمہاری مصیبت دور ہو اور اگر کہیں ظالم لوگ چھوڑ دینے پر نہ مانیں اور جان ہی لینے پر آمادہ ہوں تو مسلمانوں کو مقابلہ پر مضبوط ہوجانا ہر حال میں فرض ہے، گو کمزور ہی ہوں، خلاصہ یہ کہ حتی الامکان فتنہ وفساد کو امن کے ساتھ دفع کریں اور جو کوئی اس پر بھی سر ہی ہوجائے تو پھر مرتا کیا نہ کرتا. (حیاۃ المسلمین) 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں